سچی کہانیاں


وہ سیاہ رات
    تحریر: بنت الھدیٰ
ھم دوست تھے یا بچھڑے ھوئے بھائی جو غلطی سے دو گھروں میں پیدا ھو

گئے تھے بچپن ساتھ گذرا اور جب ھم یونیورسٹی میں قدم رکھنے لگے تو وہ نجانے کہاں کھو گیا میں نے بھت تلاش کیا مگر وہ چوں کہ اکلوتا تھا لھذا پتہ چلا وہ ماں* باپ کے مرنے کہ بعد گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا کہیں اور میرا بھی ٹرانسفر ہو گیا میں ایک اچھا پروفیسر بن کر ملک و قوم کی خدمت کر رھا تھا اور اسی دوران میری بھنوں اور بھائیوں کی شادی ھو گئی اور پھر میری باری آئی تو اللہ نے مجھے ایک اچھی وفا شعار بیوی سے نوازا امی اپنی بھو کی تعریف کرتے نا تھکتی تھیں میں اکثر انکو چھڑتا 

امی یہ سلمیٰ کو پتہ ھے آپکو کچن کوئین چاھیے تھی لھذا پھلے ھی وہ اکسپرٹ بن گئی تو پھر ھمارے گھر آئی 

غرض ھمارا گھر اللہ کے فضل سے ایک امن و سکون کا گھوارہ تھا لیکن میں*اپنے میرے دوست کی یاد کسی طرح بھی بھول نھیں پایا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جب میں یونیورسٹی سے نکل رھا تھا رات کے تقریبا 9 بج چکے تھے میں نکلا آج شدید بارش ھو رھی تھی میرے سارے دوست پروفیسر جا چکے تھے میں اللہ پر بھروسہ کر کے نکلا تو راستے میں میری گاڑی انجن میں پانی جانے کی وجہ سے بند ھوگئی اب میں تھا اور ظالم موسم گو کہ میں اس شھر کہ چپہ چپہ سے واقف تھا مگر آج اتنی شدید بارش تھی کہ کچھ سوجھ ھی نھیں رھا تھا راستہ بری طرح بھٹک گیا چلتے چلتے پیاس اور گھبراھٹ سے میں نے ایک ایسے محلے میں قدم رکھ دیا جھاں عام اور صحیح موسم میں تو کبھی نھیں آتا ٹوٹے پھوٹے گھر ملک کے اقتصاد کا منہ بولتا ثبوت تھے تو وہیں پر ھمارے چھرے کا معیوب داغ کہ ھم نے اپنے غریب ھم وطن لوگوں کو اس مشکل میں اکیلا چھوڑ دیا تھا میں چل چل کر تھک گیا تھا ساتھ ساتھ پیاس بھی پاگل کیئے دے رھی تھی میں تیزی سے ایک گھر جس کے باہر ایک ٹمٹماتا بلب موجود تھا رک گیا اور دستک دی ٹھنڈک بڑھ رھی تھی اور گیلے لباس میں میرا براحشر ھو رھا تھا 
دروازہ ایک معصوم سی بچی نے کھولا وہ بھت پیاری سی تھی پرنٹڈ شلوار قمیض پھنے تھی اس کے چھرے پر گھبراہٹ طاری تھی "آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔" بمشکل وہ بولی۔
" کیا مجھے پانی مل سکتا ھے بیٹی ؟" میں نے اسکی غیر معمولی گھبراہٹ کو نظر انداز کر کے پوچھامجھے پیاس کے علاوہ کچھ سمجھ نھیں آرہا تھا۔ وہ کچھ نا بولی اور اندر بلا لیا اور قریب ہی نل سے پانی کا گلاس دے دیا میں* اب اس قابل تھا کہ اس پر غور کر سکوں جبکہ وہ کھڑی اب بھی رو رھی تھی "کیا ھوا بیٹی ؟" میں*نے پوچھا
"ابو" بمشکل وہ بول سکی اسکی آواز رندھی ھوئی تھی اور گلا بیٹھا ھوا تھا
"کیا ھوا ابو کو؟ طبیعت تو ٹھیک ھے آپکے والد کی؟" میں نے گھر کا جائیزہ لیتے ھوئے پوچھا یہ کوئی آثار قدیمہ کا حصہ لگ رھا تھا ھر طرف سے وحشت ٹپک رھی تھی ایک بار تو میرے اندر بھی جھرجھری آگئی وہ مجھے اشارے سے اوپر لے آئی جھاں اسکا باپ زندگی کی آخری سانسیں گن رھا تھا
کمرہ کیا تھا اللہ اکبر ھر طرف سیاہ اندھیرہ تھا دیواریں روغن سے بے نیاز اور سر اگر سیدھا کرو تو سر چھت سے ٹکرا رھا تھا بمشکل کھڑا ھو پا رھا تھا
میں نے دیکھا ایک مریض زمیں پر پڑا ھوا ھے پڑا ھوا اس لے کھا کیوں کہ وہ ہلکی سے چادر پر لیٹا ھوا تھاسر کے نیچے ایک میلا سے تکیا تھا میں نذیک پہنچا اور جیسے ھی اس پر جھکا لرز کر رہ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرا دوست میرا یار میرا جگر تھا جس کو میں دنیا میں ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا وہ یہاں تھا میری دسترس سے دور ۔۔۔
"صالح ۔۔۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔۔ت۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔یہاں؟؟" میں حیران تھا وہ اتنا نفاست پسند اور یہ گھر اور کمرہ ؟؟
"ابوذر؟؟؟" اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر پوچھا
"ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔ ابوذر۔۔۔۔۔۔ تیرا یار،دوست، جگر" میں نے تیزی کہ ساتھ کہا
"پ۔۔۔۔پ۔۔۔پانی۔۔۔۔" وہ بمشکل بولا اسکی زبان اٹک رھی تھی وہ بول نھیں پا رھا تھا۔
بچی بھاگ کر پانی لے آئی میں نے اس کو اٹھا کر پانی پلایا پھر بستر پر(بستر بولنا غلط ہی ہوگا کیوں کہ وہ اکھیری چادر تھی گھر میں کچھ نا تھا یہ گھر ہر نعمت سے بے نیاز تھا) لٹا دیا۔
"یہ سب کیا ھے؟" میں نے روتے ھوئے پوچھا میرے خواب میں بھی نا تھا ھم ایسے ملیں گے ۔"یہ پڑھو" وہ بولا اور رونے لگا" کیا ھے یہ؟" میں*نے حیرت سے خط کی طرف دیکھا پھر کھول لیا۔
یہ ایک لڑکی کا خط تھا جو اسکے محبوب کہ نام تھا۔
تم یہ مت سمجھنا میں*تجدید عھد کرنے کے لیے خط لکھ رہی ہوں یا پھر 
تھک گئی ھوں زندگی سے یا وغیرہ وغیرہ
تم نے مجھے بھت دھوکہ دیا اور بتایا بھی نھیں یہ تمھارا ارادہ تھا
تم نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا اور پھر تم جانتے تھے میں ایک نجیب اور اچھے گھرانے کی ھوں دھوکہ دیا شادی کا وعدہ کیا اور آہستہ آہستہ میرےقریب 
آئے اور میرا اعتبار حاصل کیا اور پھر اچانک بھاگ گئے جب کہ تم جانتے تھے تمھارے گناہ کی سزا میرے اندر ھے میں کیا کرتی کھاں جاتی میں ایک دوراھے پر کھڑی تھی میں نے والدین کی عزت کی خاطر گھر چھوڑ دیا اور اس محلے میں اگئی جہاں کوئی مجھے جانتا نا تھا اسی دوران مجھے پتہ چلا میرے گھر والے مر گئے ان کے قاتل تم ھو وہ میرے لیے تڑپتے تھے مگر میں ان سے مل نھیں*سکتی تھی کیا کرتی مل کر انکو بتاتی تم نے مجھے دھوکہ دیا؟ بتاتی کس طرح میں تمھارے جال میں پھنس گئی؟۔۔۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مر گئے میں اور تنہا ھو گئی اب جبکہ میں مر رھی ھوں میرا ضمیر مجھے ھر لمحہ سزائے موت دیتا ھے اب یہ بچی تمھارا خون تنھا ھے اس کو سنبھال لو خدا حافظ
خط پڑہ کر میرے رونگھٹے کھڑے ھو گئے یہ کیسا خط تھا اور یہ سے؟؟
میرے پاس بھت سے سوال تھے جبکہ میرا دوست زندگی و موت کے درمیان سانسیں گن رھا تھا اور میں پریشان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




بقیہ وہ سیاہ رات
ھمارے گھر کے ساتھ ایک بھت امیر لوگ رھتے تھے وہ انتھائی امیر تھے مجھے پتہ تھا کہ اگر ھم ان کے گھر رشتہ دیں تو کبھی بھی ہاں نھیں ہو گی اسی لیے میں نے دوسرا طریقہ استعمال کیا اور انکی بیٹی سے رابطہ بڑھانا شروع کیا میں اور وہ ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے دوستی ، محبت پھر عشق ھر دہلیز کو ھم نے چھوا وہ بھت اچھی اور نیک لڑکی تھی میں بھی بری نیت نھیں رکھتا تھا مگر اسی محبت میں نا جانے کہاں سے ہوس آگئی اور پھر نجانے کیا ھوا میں خود ڈر گیا اب کیا ھوگا مجھے یقین تھا اس کے والد مجھے جیل بھجوا دیں گے میں نے امی ابو کو راضی کیا اور جلدی جلدی گھر بیچ کر ملک سے باھر چلے آئے اور پھر امی ابو کے انتقال کے بعد جب کہ میں شادی کر کے دو بیٹوں کا باپ بن چکا تھا ضمیر کی خلش سے مجبور ھو کر واپس وطن لوٹ آیا اور یہاں اپنا کاروبار شروع کر دیا اب میں کوئی معمولی انسان نا تھا لیکن ایک دن یہ خط آیا اور میری کائنات پلٹ گئی اب احساس جرم مجھے جینے نھیں دیتا اسی گھر میں اسی جگہ اس نے اپنی جان دی میں چاہتا ہوں کہ اسی جگہ اسی کی طرح مر جائوں۔
صالح نے اپنی وحشت ناک اور سیاہ زندگی کا باب میرے سامنے کھولا میں سکتے کے عالم میں سن سا ہو کر رہ گیا یہ وہ دوست تھا جو ہماری ایک ذرہ سی پریشانی برداشت نھیں کر سکتا تھا اور اب ۔۔۔۔۔۔۔۔
"رحمان" وہ پکارا اس کے سرد ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکرائے تو مجھے ہوش آیا آج مجھے اپنے دوست کا معصوم اور خوبصورت چہرہ کسی شیطانی اور ابلیس جیسا لگ رہا تھا جس نے ایک پورے خاندان کو اجاڑ دیا تھا
"میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو اور یہ سوچنا تمھارا حق بھی ھے " وہ بمشکل مسکرایا
"میرے دوست دوستی کا واسطہ میری مدد کرو"
"کیسی مدد" میں*نے قریب رکھے پانی کو حلق سے اتار کر پوچھا
آج کی رات تو میرے لیے قیامت تھی جب ہر لمحہ مجھ پر قیامتیں ٹوٹ رھیں تھیں میں سوچ رھا تھا کہ 
اے اللہ وہ قیامت جب ظالم اپنے ظلم کا بدلہ چکھے گا وہ کب آئے گی؟
ابھی تو ان مظلوم پر قیامتیں گذر رھی ھیں وہ مظلوم و معصوم لڑکی کیا گناہ تھا اس کا؟ اور اس معصوم بچی جس کا بچپن ایک ماں و باپ کو مانگ رھا ھے اور یہ اب لاوارث تھی"
تم اللہ کا واسطہ انکار مت کرنا" وہ گڑگڑایا 
"واسطہ مت دو ھم دوست تھے ھیں اور رھیں گے کاش تم یہ بات مجھے بتا دیتے تو میں شاید اس وقت تمھاری مدد کرتا
میں*نے روتے ہوئے کہا "شیطان جب بھکاتا ھے تو زندگی سے مایوس بھی کر دیتا ھے " 
صالح مسکرایا
میرے دوست کیا تم نھیں جانتے کہ اللہ کو مایوسی پسند نھیں؟؟ گناہان کبیرہ میں*سے دوسرا گناہ اللہ کی مدد سے مایوسی ھے؟میں رونے لگا 
کیا اللہ مجھے معاف کردے گا؟اس نے معصومیت کے ساتھ مجھ سے پوچھا
"اتنے گناہ کے باوجود؟"وہ سسکا "ایک گھر برباد ھو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی نے گھر سے بھاگ کر ماں باپ کو رسوا کیا۔۔۔۔۔ وہ گناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرام کی اولاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک انسان اپنی زندگی کی خوشیاں نا دیکھ سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ گناہ۔۔۔۔۔۔۔دھوکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ رونے لگا 
اسکا جسم جھٹکے کھا رہا تھا میں خاموش تھا اس کی کسی بات کا جواب میرے پاس نا تھا 
"ابوذر۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کے لیے میرے لیے دعا کرو وہ خالق مجھے معاف کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جس کی نافرمانی میں عمر گذار دی "
اسکی سانس پھر اکھڑنے لگی میں اسکو سنبھال رہا تھا مگر اس کا ضمیر اور اس کی عدالت بھت سخت تھی وہ 
روتا تھا پھر اللہ کو پکارتا تھا پھر پھلو بدل کر بیٹی کو دیکھتا تھا
"ابوذر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری بیٹی کی کفالت کرو گے؟" اس نے ایک دم مجھ سے پوچھا 
یہ بھت معصوم ھے اس کا کوئی گناہ نھیں سوائے بد قسمتی کہ وہ میری بیٹی ھے؟"
"کفالت؟" میں*چونکا
پھر بچی کی طرف دیکھا 
جو مسلسل کھڑی رو رھی تھی
"یہ نا صرف تمھاری بیٹی ھے بلکہ میری بھی ہے انشاءاللہ تم خود اسکو پالنا پوسنا بڑا کرنا" میں نے اس کوامید لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"تمھارا کس زبان سے شکریہ ادا کروں؟" وہ پھر رویا
مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔۔ میرا سب اثاثہ میں نے اس کی ماں کے نام پر لٹادیا مگر وہ ٹھیک نا ھو سکی اور ھمیشہ ھمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر چلی گئی "
"صالح میرے دوست مایوس مت ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ رحیم ھے اس کا وعدہ ھے وہ توبہ قبول کرتا ھے اس سے امید رکھو"
میں نے سمجھاتے ہوئے کھا 
وہ مسکرایا اور بولا"انشاءاللہ مجھے معاف کر دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اس قیامت والی رات میں جب آسمان بھی مجھ پر گریاں ھے اور زمین میرے حال پر تڑپ رہی ھے تم کو اللہ ہی نے یہاں بھیجا ہے"
وہ پھر رونے لگا ایک بار اچانک تڑپنے لگا اس کا جسم بری طرح جھٹکے کھانے لگا اس کا ہاتھ دل کی طرف بڑھا اور پھر زمین پر گر گیا میں*نے سینے پر سر رکھا تو لرز کر رہ گیا وہ ضمیر کا قیدی اس کی عدالت میں 
موت سے ہمکنار ہو چکا تھا میں رونے لگا اور جیب سے قرآن مجید نکال کر اس کے سرہانے پڑہنے لگا اب مجھے صبح کا انتظار تھا میں چاہتا تھا اس کا جنازہ میرے گھر سے اٹھے اور سب دوست احباب آکر اس کے جنازے کو کاندھا دیں۔


Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...