Friday, 29 August 2014

Thursday, 28 August 2014

میری دادی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میری دادی سب سے الگ سب سے جدا!
جی ہاں! میری دادی کی تو با ت ہی الگ ہے۔ میری دادی کاقد لمبا تقریبا چھ فٹ کے قریب ہے۔ لمبی گرے رنگ کی چوٹی،ہاتھوں میں سچے موتیوں کی دو چوڑیاں ہر وقت رہتی ہیں۔کانوں میں چھوٹے ٹاپس، اور گلے میں بھی سچے موتیوں کی مالا پہنے رہتی ہیں۔ رنگ تو سانولا ہے مگر وہ دل کی بہت خوبصورت ہیں۔ہر وقت ان کے ہونتو پہ مسکان سجی رہتی ہے۔اگر ان سے کچھ چاہیئے  ہے تو مانگنے کی ضرورت ہی نہیں بس ایک دو بار اسے ہاتھ میں لے کے دیکھویا ٹکٹکی باندھ کے اسے دیکھتے رہو، اور بس! دادی فورا وہ چیز دے دیتی ہیں۔ مگر ہر کسی کو نہیں! جب تک آنکھوں میں اس چیز کی قدر نہ دیکھ لیں دیتی نہیں ہیں چاہے کتنا ہی کیوں نہ مانگ لو۔۔۔۔۔چاہے کتنا ٹکٹکی باندھ کے کسی چیز کو دیکھو۔۔۔۔۔وہ ٹس سے مس نہیں ہوتیں ہیں۔۔میں نے دس سال کی عمر سے انکو یونہی دیالو دیکھا ہے اب جبکہ میں کالج میں آگیا ہوں مگر انکی سخاوت تو ویسے کی ویسے ہی ہے۔وہ آج تک نہیں بدلیں اور آگے دس سالوں تک بدلنے کی کوئی پلاننگ ہے۔
میری دادی کیا ہیں انکی کیا کیا صفات بتائوں بس یہ سمجھ لیں کہ ہمارے خاندان کے ہر فرد کی زبان پہ بس انہی کا نام رہتا ہے۔ کسی کے ہاں رشتہ آیا ہے تو ہماری دادی کے بغیرانکا کام نہیں چلے گا۔کسی کے ہاں بچے کی ولادت ہے تو ہماری دادی پیش پیش ہیں۔ شادی بیاہ دکھی درد یا غم کا کوئی بھی لمحہ ہمارے خاندان میں ان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہماری پھوپو انکواماں مشوہ کہتی ہیں ۔ جبکہ پاپا انکو غم کی دوا کہتے ہیں چاچو انکو سکون کی ٹیبلیٹ کہتے ہیں۔صرف میری ممی ہیں جو انکو اماں کہتی ہیں۔
ہمارا گھر جو چار منزلہ ہے اسکا نقشہ بھی دادی نے بنایا تھا اور صرف یہی نہیں کہ انہوں نے نقشہ بنایا تھا بلکہ جب گھر بننے کی بات آئی تو ٹھیکیدار سے لیکرمزدوروں تک کا انتخاب پاپا کی امی نے کیا تھا۔ اور پاپا تو سارا دن کام پہ ہوتے تھے کام کی نگرانی بھی دادی اماں کرتیں تھیں بس ایک دن دادی کو ایمرجنسی میں خالہ جانی کے گھرجانا پڑا بس اس دن مزدوروں نے اپنی چلائی اور اس دن مزدوروں نے ایک ایسی غلطی کی کہ دادی کون مجبورا اس غلطی کو برداشت کرنا پڑا۔ اور وہ غلطی تھی تو بہت سنگین لیکن اب کیا ہوسکتا تھااب تو لینٹر چھت بن گئی تھی اوردیواریں بھی کھڑی ہوگئیں تھیں پلاسٹر بھی ہو چکا تھا۔ آپ سوچیں گے کیا تھی وہ غلطی؟ تو وہ غلطی سب برداشت کر سکتے ہیں مگر دادی جیسی نفیس خاتون نہیں۔ اور وہ غلطی تھی باتھ روم کی کیلکولیشن میں غلطی! اور اس سے کیا ہوا؟ ہمارا باتھ روم چھوٹا ہو گیا اتنا چھوٹا کہ اس میں دادی کے مطابق ایک ٹب اور ایک کپڑے دھونے کی مشین نہیں آپائی۔ جس کی وجہ سے اب مشین گیلری میں اور ٹب بازار میں جاکر بیچنا پڑا! جی ہاں ٹب کے بغیر نہانے میں کوئی مزا آتا ہے؟ نہیں نا! جب تک پانی کے ٹب میں بیٹھ کر اچھی طرح پانی سے کھیلیں نہیں، پانی اڑائیں نہیں، خوب ہاتھ پائوں نہ چلائیں اس وقت تک کیا مزا پانی میں نہانے کا! دادی نے بچوں کے لئے ایک بڑے ٹب کی جگہ بھی بنائی تھی نقشہ میں! کتنا خیال ہے نا دادی کو بچوں کا  جبھی تو ہم کہتے ہیں کہ دادی جی زندہ باد!دادی نے پھر ہمارے لئے یہ اسکا بدل رکھا کہ ہم بچوں کی ممبر شپ اسکول کے سوئمنگ پول میں کروائی اوراس کی فیس بھی وہ خود دیتیں تھیں اورسوئمنگ کے سالانہ مقابلے میں ضرور آتیں تھیں اور جیتنے والے کو انعام دیتیں تھیں۔
اس کے علاوہ دادی کی ایک بات بہت عجیب تھی موبائل کے دور میں تھیں۔ مگر پھر بھی وہ ٹیلیفون رکھتی تھیں۔ہر وقت کوئی نہ کوئی ان سے باتوں میں مصروف رہتا تھا۔ جب دیکھو دادی کے ٹیلیفون کی بیل بجتی رہتی تھی۔اور دادی بے چاری کبھی کسی    سےنہیں کہتی تھیں کہ یہ کوئی وقت ہے فون کرنے کا!
مگر جو بات عجیب تھی وہ یہ تھی کہ ان کے ٹیلیفون کا تار اتنا لمبا تھا کہ جیسے شیطان کی آنت! ۔ جی ہاں یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہےَ۔اتنا لمبا تار اس لئے تھا کہ وہ مہینہ میں ایک بار پورے محلے کی خیر خبر کے لئے نکل جایا کرتیں تھیں اور ساتھ میں انکا لمبا تار ان کےساتھ ہوتا تھا۔اور ہم سب بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ ہم انکا تار انکے ساتھ ساتھ لے جائیں جہاں وہ جائیں! یعنی جہاں دادی وہاں انکا ٹیلیفون! کسی بچے کی ڈیوٹی باہرہوتی تھی کہ کہیں کوئی راستہ چلنے والا تار سے ٹکرا کہ گر نہ جائے۔ کوئی گھر میں تار سنبھالتا تھا اور میں ان کے ساتھ ہوتا تھا ٹیلیفون پکڑےہوئےاور میرے ساتھ ہی سائر بھی ہوتا تھا ، جیسے ہی فون آتا میں دادی کو پکڑا دیتا دادی فون سنتیں ، اور اہم باتیں سائر کو لکھوادیتیں تھیں۔اور پھرفون مجھے پکڑاتیں تو میں واپس سیٹ میں رکھ دیتا۔ کبھی کبھی جب وہ کسی سے انتہائی اہم کام کر رہی ہوتیں یا کوئی ان سے ملنے آیا ہوا ہوتا تو کہتیں ‘‘ بیٹا کہہ دو کہ مجھے شام میں فون کر لیں میں اس وقت بہت مصروف ہوں’’ تو میں انکی طرف سے جواب دے دیتا۔
پھر ایک دن علاقے میں کام ہو رہا تھا تو ٹیلیفون کی تاریں ٹوٹ گئیں اور پھرٹیلیفوں بند ہو گیا اس دن دادی کی تو حالت ہی خراب تھی نہ کھانا کھایا نہ پان کھایا نہ کمرے سے نکلیں ہم سب بچے رو رو کر بے حال ہو گئے۔
امی بھی ان سے منتیں کرتیں رہیں کہ کچھ کھا لیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ پھر شام کو پاپا پہلی فلائٹ سے دبئی سے واپس آگئے وہ کسی کام سے کل ہی تو گئے تھے مگر دادی کی حالت کا سن کر وہ فوراً واپس آگئے اور جب انکو پتہ چلا  کہ دادی کی یہ حالت ٹیلیفون کی وجہ سے ہے تو انہوں نےپی ٹی سی ایل والون کو فون پہ فون کئے کہ کسی طرح سے ٹیلیفون کی لائن ٹھیک ہو جائے مگر وہ تو کسی صورت مان نہیں رہے تھے کہتے تھے ایک مہینہ لگے گا۔ پھرپاپا جلدی سے بازار گئے اور ایک اُسی پی ٹی سی ایل کےنمبر کا وائرلیس سیٹ لے آئے۔ جیسے ہی گھر پہنچے لگاتار ٹیلیفون بجتا چلا گیا۔ ا اور دادی پہلے تو منہ بنائے رہیں کہ مجھے تو اپنا سیٹ وہی چاہیے ہے‘‘ تار والا’’ لیکن جب پاپا نے یقین دلایا کہ جیسے ہی سروس بحال ہوئی تو تار والا سیٹ لگا لیں گے۔ تو دادی نے بد دلی سے ٹیلیفون اٹھا کر کان سے لگایا اوراسلام علیکم جیسے ہی کہا ہم سب نے یاہو!!! کا نعرہ لگایا اور دادی شرمیلے پن سے مسکرا دیں۔ تو امی نے جلدی سے ان کے بیڈ کے پاس رکھی ٹیبل پہ کھانا لگادیا اور ہم سب بچوں نے دادی کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھایا۔
 پھر پاپا نے دادی کو پیار کیا اور ان سے اجازت لیکے اپنا بریف کیس اٹھایا اور ممی سے خداحافظ کرنے چلے گئے اور ہم سب دادی کے کمرے میں ہی قبضہ جمائے رہے۔
خاندان کی عورتیں اور محلے والیاں دادی کو نئے سیٹ کی مبارک باد دینے آئیں تو دادی کا منہ لٹک گیا‘‘ مجھے تو وہی چاہیئے’’ دادی سب کو یہی کہتی رہیں ۔اور آنے والی خواتین کہتیں کہ یہ اس سے اچھا ہے تو دادی وائرلیس کے نقصانات بتاتیں تو سب یہی کہتی ہوئی جاتیں کہ ہاں اپنا ٹیلیفون زندہ باد!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن ممی نے دادی سے کہا کہ فراز کی شادی کا سوچیں نا۔۔اب اس کی شادی ہونی چاہیئے۔ممی نے چاچو کی طرف اشارہ کیا ۔ ارے اسکے لئے لڑکی تو میں نے دیکھ رکھی ہے۔ دادی نے پان لگاتے ہوئے ممی سے کہا
ہم سب بچے خوشی سے جھوم اٹھے ‘‘چاچو کی آئے گی بارات، حسین ہوگی رات، ہم تو دلہن لائیں گے’’۔۔۔ ہم نے خوب ہنگامہ کیا۔
‘‘ارےتم لوگ زرا چپ ہو جائو ورنہ باہر جائو’’ ممی نے کہا تو ہم سب چپ ہوگئے۔
اماں کون ہے لڑکی؟ ممی نے حیرت سے پوچھا
وہی اپنی جو صائمہ ہے نا اس کی بیٹی ایمان! دادی نے چاچو کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔بیٹا تمہاری پسند ناپسند مجھے پتہ ہے اور اس کی بھی پسند نا پسند میں جانتی ہوں اور بیٹا ماں ہونا آسان ہے ماں کا مقام پانا مشکل ہے وہ ایسی ہے کہ بانو کے ساتھ بھی بہت اچھی طرح رہے گی گھر کے کسی فرد کو اس سے شکایت نہیں ہو گی اور پڑھی لکھی ہے سب بچوں کوپڑھائے گی۔ اور دیکھنا کہ دلہن کی کھاناپکانے کی ذمہ داری بھی کم کر دے گی۔ میری ممی بانو کو دادی ۔دلہن کہتی ہیں اور فراز کے کام میں اس کی مددگار ہو گی۔ بہت زیادہ فیشن ایبل نہیں۔دینی گھرانے کی لڑکی ہے بیٹا دینی لڑکیاں ہر مشکل کو برداشت کرلیتی ہیں اور  ہرطرح کے حالات میں ڈھل جاتی ہیں۔  اور ہر ایک کے کام آتی ہیں مگر ظلم برداشت نہیں کرتیں ہیں۔ سمجھے ۔۔۔دادی نے چاچو کو وارننگ دیتے ہوئے کہا۔
اس رشتہ پہ سب راضی تھے سوائے ممی کے انہوں نے ہنگامہ مچا دیا تھا کہ یہ رشتہ نہیں ہو سکتا۔
دادی بھی اڑ گئیں کہ یہیں ہوگا رشتہ۔۔۔
پھر میٹنگ ہوئی اورمیٹنگ میں پاپا،پھوپو،پھوپا،چاچو، تایا اور تائی بھی تھے۔ سب کے سامنے رشتہ رکھا گیا اور سب سے رائے لی گئی تو سب نے ہی اے ون کہا سوائے ممی کے۔ سب نے لڑکی کی تعریفیں کیں اس کی تعلیم اس کے سگھڑاپے اور اس کی سادگی کی غرض ہر چیز کی تعریف جو ایک لڑکی میں ہونی چاہیئے۔ لیکن ممی! ممی کی تو ایک ہی رٹ تھی نہیں نہیں۔
دادی نے کہا کوئی سولڈ ریسن بتائو ممی بس یہی کہہ رہی تھیں کہ لاہور آ اوہ نو! پپا نے ممی سے پوچھا کہ آپ کو لاہور پہ کیوں اعتراض ہے؟ تو ممی نے کہا کہ لاہور جانا اور وہ بھی شادی کے سلسلے میں بہت مشکل ہے۔ اتنی بڑی بارات کو لے جانا پھر واپس بھی لانا ان خراب حالات میں نا ممکن ہے۔ اس لئے یہاں کی لڑکی ڈھونڈھیں۔
مگر دادی کی بھی ایک ہی رٹ تھی شادی ہوگی تو یہاں ورنہ نہیں ہوگی!
پھر ممی نے کہا کہ ٹھیک ہےمگر پھر بری میں زیور نہیں جائے گا۔۔۔۔
‘‘وہ بھی جائے گا ’’دادی نے کہا،ورنہ لوگ کہیں کیسے ننگے بھوکے لوگ ہیں۔۔۔۔اتنی دور سے آئے مگر زیور تک نہیں لائے
مگر اماں اتنا خطرناک وقت ہے اپنی جانوں کا کچھ نہیں پتہ اور آپ زیور کی بات کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ممی کے لہجے میں چھپا خوف صاف ظاہرتھا۔
بیٹی تم اسکی فکر نہ کرو ہم ٹرین سے جائیںگے اور زیور لے جانا میری ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔
کیا سب ایک دم چلا اٹھے
ہاں مجھ پہ یقین کرو کچھ نہیں ہوگا دادی نے سب کو یقین دلایا
‘‘دیکھ لیں ہمیں آپکی زندگی ہر قیمت پہ عزیز ہے’’ پپا نے دادی سے کہا اور کچھ سوچ کر ممی کی طرف گھومے اور کہنے لگے ‘‘بانو ٹھیک کہتی ہیں یہ شادی مشکل ہے۔’’
سبب بتائو رشتہ منع کرنے کا۔۔۔۔ دادی نے سختی سے کہا
سبب آپ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ممی آپ۔۔۔پپا نے ان کو پیار سے دیکھا۔۔ کیوں بانو تم نے بھی اسی لئے منع کیا ہے نا ۔۔۔ پپا نے ممی سے کہا۔
جی ۔۔۔ جی میں نے اماں آپ کی وجہ سے اتنا اچھا رشتہ منع کیا ہے ممی نے سر جھکا کر کہا۔۔۔اگر۔۔۔۔۔۔ آپ کو کچھ ہوا ۔۔۔۔۔ممی کی آواز بھرائی ہوئی تھی تو میں بھی مر جائوں گی آپ کو پتہ ہے نا مجھے آپ بہت عزیز ہیں اپنی ماں کی طرح بلکہ اب تو میری ماں نہیں ہیں اس لئے اب میں آپ کو اپنا سب کچھ مانتی ہوں۔۔۔۔ اس لئے آپ سے کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔۔
 ممی اب باقائدہ رو رہی تھیں۔۔
 اور دادی ان کو گلے سے لگائے چپ کروا رہی تھیں ۔۔۔۔ بہت دیر تک ممی کو دادی نے تسلی دی اوریقین دلایا کہ کچھ نہیں ہوگا۔  
بالآخر طے پایا کہ اگلے ماہ کی دس تاریخ کو نکاح و رخصتی اور گیارہ کو ولیمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں ممی بس ڈری ہوئی تھیں نا تو دادی نے ان کی ٹی وی دیکھنے پہ پابندی لگا دی تھی۔خاْص طور پہ نیوز چینل ! تاکہ خبریں سن سن کے پریشان نہ ہوں۔
اور ہم سب خوب دل لگا کر پڑھنے لگے تاکہ جلدی جلدی امتحانات سے فارغ ہوجائیں تو پھر خوب ہلا گلا کریں۔امتحانات ختم ہو گئے تو سارے کزنز جمع ہو گئے اور ہم سب نے مل کر خوب ہلا گلا کیا اور ہمارے بڑے شادی کی تیاریاں کرتے رہے ہم نے بھی خوب اچھے اچھے کپڑے بنائے اور جوتے تو ہم سب نے وہی پہننے تھے جو ہم نے عید کے لئے خریدے تھے۔
 لڑکیوں کے لئے بھی دادی نے کہا تھا کہ صرف بارات کا یک سوٹ بنائیں۔اور باقی تقریبات کے لئے عید کے کپڑے پہنیں۔ جوتے اور سنڈلز بھی عید کے اور پہلے کے ہی پہنیں۔ہم سب تو دادی کے دیوانے یہ کیسے ہو سکتا ہے ان کی بات نہ مانیں۔ ہم سب چاچو کے ساتھ خوب مزا کر رہے تھے وہ ہمیں شام کو پارک لے جاتے تھے اور وہاں پہ ہم سب بچے جھولے جھولتے بھاگم دوڈ کرتے۔ اور نماز کے وقت گھر آجاتے۔ ہاتھ منہ دھو کر نماز پڑھتے اور پھر کھانا کھاکر کامن روم میں بیٹھ جاتے
 اورہم سب کو سفر کے آداب بتاتیں اور سفر کے دوران ہمیں کیا کرنا ہوگا اور کی نہیں یہ سب بتاتیں۔ اس طرح ہم ذہنی طور پر آمادہ ہو رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اپنے گھر میں جتنی شرارت کرنی ہے کر لو۔ مگر کسی کے گھر جاکے سکون اور آرام سے بیٹھنا ہے ۔
 اپنے گھر کی جس چیز کو چاہے دیکھو، اٹھائو، توڑو یا پھینک دو تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا مگر کسی کے گھر جا کے چاہے کوئی چیز تمہیں کتنی ہی اٹریکٹ کیوں نہ کرے تم نے وہ نہ اٹھانی ہے، نا دیکھنی ہے نہ چھونی ہے، نہ ہی توڑنی ہے، نہ پھینکنی ہے۔
آپ کو کہیں اور جا کے اپنی خاندانی تہذیب دکھانی ہے۔ لوگ ہمیں دیکھ کر ہمارے خاندان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔اور ہم جن کے گھر جائیں گے نا ان کو لوگ باتیں سنائیں گے کہ آپ کس خاندان سے رشتہ کر رہے ہیں یہ تو جاہل ہیں۔ انکو بھی ہماری وجہ سے باتیں سننا پڑیں گی۔اسی طرح سے ہمارے امام کو بھی ہماری وجہ سے باتیں سننا پڑتی ہیں۔
اسی طرح جب ہم کوئی غلط بات کرتے ہیں یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ہے تو پھر پہلے کی امت کے لوگ ہمارے مولا حسینؑ سے کہتے ہیں کہ یہ کتنے خراب لوگ ہیں ان کی خاطر آپ نے اپنا علی اصغرؑ قربان کیا؟ تو کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ کوئی مولا علی اصغرؑ کو باتیں سنائے یا پھر مولا حسین ؑ کو! ہم سب نے یک زبان ہو کر کہا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو دادی نے کہا کہ پھر آئندہ کبھی بھی کوئی غلط حرکت نہیں کیجیئے گا کبھی جھوٹ ،چغلخوری،  کسی پہ الزام ،ماردھاڑ اور چوری اور غلط بیانہ بہانے بازی نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے؟۔۔۔
ہم سب نے یک زبان ہو کر کہا انشا اللہ
پھر دادی نے ہم سب کو امام علی رضا ؑ کی نیشاپور پہنچنے کی کہانی سنائی اور ہم سب کو کہا کہ کل یہ کہانی جو پوری صحیح لکھ کے لآئے گا اسے میں ایک تسبیح دو نگی دادی نے تسبیح دکھائی نئی کرسٹل کی پنک تسبیح ہم سب کے دل بے قرار ہو گئے
دادی نے ہم سب کی آنکھوں میں شاید چمک دیکھ لی تھی۔ اسی لئے کہنے لگیں کہ میرے پاس ایسی سات تسیبیحیں ہیں اور سب مختلف رنگوں میں اب جائو سب سو جائو۔
ہم سب اپنے اپنے کمروں میں چلے آئے اور میں نے کاغذ نکالا  اور کہانی لکھنے لگا۔ ممی نے کہا کہ بیٹا سو جاؤ۔۔۔ میں نے کہا ممی صرف پندرہ منٹ دے دیں۔ پھر میں نے کہانی لکھی اور ممی کو دکھائی ممی نے کہا ٹھیک ہے تومیں نے کہانی کو فولڈ کر کے بیگ میں رکھ دی۔ پھر ممی نے مجھے دودھ کا گلاس دیا جسے میں نے  بسم للہ پھ کرپیا اور وضو کر کے بستر پہ آیا گیا اور دادی کی یاد کروائی ہوئی تمام آیاتیں اور دعائیں پڑھیں اور پتہ نہیں کب سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دم شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے آنکھیں مل مل کے دیکھا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
لڑکے ۔۔ اے لڑکے ہاتھ اوپر کر کے نیچے اتر ۔۔۔۔۔ کوئی چالاکی دکھائی تو تجھے گولی لگے گی تیری اماں پاپا بھی ادھر ہیں ادھر کو آ۔۔۔۔۔ ادھر۔۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا ایک لڑکا ہاتھ میں ٹی ٹی لئے ہوئے تھا ۔ بڑی بڑی آنکھیں تھیں بال کاندھوں تک بکھرے ہوئے تھے، نیلی پینٹ  کے ساتھ گلابی شرٹ پہنے ہوئے تھا ، شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور اس کے کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ وہ پڑھا لکھا ہے۔اس نے مجھے ہال کمرے میں پہنچا کر اندر دھکا دیا اور خود آگے بڑھ گیا۔ جونہی میں ہال میں گرکر اٹھا میں نے دیکھاکمرے میں ایک دوسرا لڑکا میری ممی کے سر پہ ٹی ٹی رکھے ہوا تھا۔
ائے میری ممی کو کچھ نہ کہنا ، ۔ میں نے اس کے ہاتھ کو ممی کے سر سے ہٹانا چاہا، اس نے مجھے گھونسا مار کر پیچھے گرا دیا، علی تمہیں چوٹ تو نہیں آئی؟۔۔۔ پلیزمیرے بیٹےکو مت مارو، ممی نے روتے ہوئے کہا
ممی ۔۔می۔۔ میں روتے ہوئے پھران کی طرف بڑھا،
ائے سیدھے کھڑے ہوجائو ورنہ تمہیں بھی اور تمہاری اماں کو بھی مار دوںگا۔۔۔۔ دوسرے لڑکے نے کہا
میں چپ چاپ ایک طرف کو کھڑا ہوگیا،
فورأ ہی دروازے سے پاپا ،تایا،تائی، سدرہ،زوار، ضیا اور چاچو بھی آگئے ان سب کے بھی ہاتھ سر سے اونچے تھے، ان کے پیچھے دو لڑکے تھے، جن کے ہاتھوں میں ٹی ٹی تھیں،پھر ایک دم دروازے سے دادی نظر آئیں انکے سر پر بھی ٹی ٹی صاف دکھائی دی، پھر وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑی دکھائی دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
دو لڑکے واپس دوسرے کمروں کی طرف چلے گئے جبکہ ایک ہمارے پاس کھڑا تھا، ہم سب ہی خاموش کھڑے تھے،
آخر تم کیا چاہتے ہو؟  پاپا نے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے کہا،
ائے ہاتھ اوپر کر چالاکی دکھاتا ہے، ہم یہاں اچار کھانے تو نہیں آئے نا۔۔۔۔ شادی والا گھر ہے۔۔۔۔ خود سوچ لو کیا لینے آئے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ایک لڑکا جو ہال میں رکا ہواتھا اس نے پاپا کے پاؤں پہ زور سے اپنی لات ماری۔۔  اس نے عجیب سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، کالی پینٹ کالی شرٹ اور چہرے پہ گہرے کالے چشمے،ہاتھوں میں دستانے،آواز میں بھی لرزاہٹ تھی مجھے لگا وہ آواز بنا رہا ہے،
ائے تمہیں جو چاہیئے لے جاؤ مگر میرے بچوں کو ہاتھ نہ لگاؤ۔۔۔ دادی نے غصہ میں چیخ کر کہا۔۔۔۔۔
تو اپنے لاڈلے سے کہو ہاتھ اوپر رکھے، سمجھیں بڑھیا۔۔۔۔۔ اس نے دادی کی طرف منہ کئے بغیر کہا۔۔۔۔
رمضان چپ رہ اور ہاتھ اوپر کئے رہ۔۔۔۔۔ دای نے کہا۔۔۔۔۔
میں نے حیرت سے دادی کو دیکھا، کیوں کہ پاپا کا نام رمضان نہیں پر دادی نے انکو رمضان کہا تھا۔۔۔۔
دوسرا لڑکا تیزی سے دادی کی طرف گھوما، کیا اس آدمی کا نام رمضان ہے؟
ہاں تمہیں کیا اعتراض ہے؟ دادی نے برا مناتے ہوئے کہا۔
ہمیں تو پتہ چلا تھا کہ اس گھر کے مالک کا نام شیخ کاظم ہے،اس نے حیرت سے کہا اور فورا موبائل پہ کسی سے بات کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کان میں ہینڈ فری لگا ہوا تھا۔۔۔ اور اس کا موبائل آن تھا۔کیونکہ وہ کسی سے فون پہ باتیں کر رہا تھا۔
تم لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، دادی نے کہا،
کیا اس گھر کا نمبر ۶۷۸ نہیں ہے؟ اس نے کان میں لگئ ہینڈ فری پہ کچھ سن کر کہا ۔ ۔
ہان ہے تو یہی مگر شیخ کاظم اب نہیں ہیں ۔۔۔ وہ  امریکہ جا رہے ہیں۔۔۔۔
اس نے فون پہ دادی کی معلومات پہنچائیں ۔۔۔۔۔۔ وہ کہاں ہیں اس وقت؟ اس نے دادی کی گردن پہ ٹی ٹٰی رکھ کر پوچھا،
شیرٹن میں یا پھر آوارگی ٹاور میں۔۔۔۔۔ دادی نے بڑے آرام سے جواب دیا۔۔۔۔
اتنے میں بقیہ دونوں لڑکے بھی آگئے۔۔۔۔۔۔ یار بس یہ کیش اور یہ کچھ قیمتی چیزیں ہی ملی ہیں۔ مگر سونا نہیں ملا
ائے کہاں رکھا ہے؟ سونا؟
لڑکوں نے دادی سے پوچھا،
کیسا سونا؟
شادی میں دینے والا؟
کیا ہم تمہیں اتنے امیر لگتے ہیں کہ سونا چڑھائیں شادی میں؟
زیادہ باتیں نہ کرو۔۔ جلدی بتاؤ کہاں ہے۔۔۔۔ سونا۔۔۔۔ سونا دو ورنہ میں ابھی تمہارے سامنے ان سب بچوں کو ماروں گا پھر بڑوں کو پھر آخر میں تمہاری باری ہے۔۔۔۔۔۔
سوچ لو۔۔۔۔ جلدی۔۔۔۔۔۔۔کلمہ پڑھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونا کوئی آج کل گھروں میں رکھتا ہے کیا؟ ممی نے آہستہ سے کہا
شادی ہے تمہارے گھر میں پہننے کے لئے لائے ہو گے؟ ایک لڑکے نے ٹی ٹٰی لہرا کر کہا
شادی ہمیں لاہور جانا ہے،۔۔۔۔۔۔ گلشن اقبال نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تائی نے بڑے غصہ سے کہا،
بتاتی ہو یا کالے کپڑوں والے نے ٹی ٹی سدرہ کی گردن پہ رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ہم سب کو مار دو تب بھی گھر میں سونا نہیں ہے تو تمہیں کیسے ملے گا۔۔۔۔تائی نے اُسی غصہ بھرے لہجے میں کہا۔
یار ہماری خبر تو کچھ اور تھی تینوں لڑکے ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے۔۔۔۔۔
تم لڑکی کی گردن سے ہٹاؤ ٹی ٹٰی ۔۔ چاچو نے روتی سدرہ کو دیکھا۔
جب تک بتاؤگے نہیں کہ سونا کہاں ہے میں نہیں ہٹاؤنگا۔۔۔۔۔
ہٹاؤ بچی کی گردن سے  ٹی ٹٰی ۔۔۔۔۔۔۔پاپا بھی ایک دم غصہ ہو گئے سدرہ ہہت ڈری ہوئی تھی اور مسلسل رو رہی تھی۔
کالے کپڑوں والا ایک دم آگے بڑھا اور پاپا کی کمر پہ زور دار گھونسا مارا چپ ہو جا ۔۔۔۔ ورنہ گلا توڑ دوں گا ا۔
میری بچی کو چھوڑ دو یہ چوڑیاں اور یہ چین لے لو تائی نے اپنی چوڑیاں اتارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
لاؤ جلدی دو تو بھی دے اپنی چوڑیاں۔۔۔ اس نے ممی کارخ کیا۔۔۔۔
میرے پاس نہیں ہیں ممی نے اپنی لمبی سی چادر سے اپنا ہاتھ باہر نکال کر دکھایا،
 بالیاں دے۔۔۔ اس نے دھاڑتے ہوئے کہا
مم۔۔۔۔۔۔میرا میاں مزدور ہے اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ سونا بنوائے، ممی نے ،منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچن میں ریک کے اوپر جو لال رنگ کا ڈبہ ہے اس میں چاولوں کے نیچے پلاسٹک کی تھیلی میں دس ہزار رکھے ہوئے ہیں جومیں نے
اپنے بیٹے کی اسکول کی فیس جمع کرنے کے لئے رکھے تھے، وہی لے لو پر میری بچی کو چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ ممی نے چادر سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
داڈھی والا لڑکا کچن سے پیسے نکال لایا
استاد چھوڑ دے بچی کو ۔۔۔۔ کالے کپڑے والے نے کہا تو وہ لڑکا جس نے جینز کی  نیلی پینٹ اور سفید ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اس نے اپنی ٹی ٹی سدرہ کی گردن سے ہٹا لی وہ بھاگ کر تائی کے قدموں سے لپٹ گئی مگر اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے وہ بہت بری طرح خوفزدہ ہو گئی تھی
تمہیں سونا چاہیئے؟ سونا چاہیئے ہے نا سونا۔۔۔۔۔۔ دادی نے چلاتے ہوئے کہا
‘‘ہاں ہاں ۔۔۔ سونا کتنی بار کہا ہے اور کہوں کیا ’’
ہم سونا لینے آئے تھے سونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داڈھی والے نے بھی چلاتے ہوئے کہا
اگر۔۔۔۔۔اگر تم لوگ چوری سے توبہ کر لو تو میں تمہیں سونا دے سکتی ہوں۔۔ اب دادی کا لہجہ پر سکون تھا۔
کیا !!!!!!!!!!!!!!!!۔۔۔۔ ہاں !!!ہاں کر لی تو بہ !!!!!!!!جلدی بتاؤ کہاں ہے سونا۔۔۔ تینوں ایک دم تیزی سے پلٹے اور دادی کے سامنے آگئے۔
رمضان میری خاندانی جڑاؤ ہیروں والے ہار کی رسید لاؤ،
رجب۔۔۔۔ تم مجھے میرے خاندانی ہیروں والے رانی ہار کی رسید لاکر دو،
شعبان تم جلدی جاؤ اور مجھے میرے خاندانی ہیروں کے چند ن ہارکی رسید لادو۔۔۔۔۔۔۔
اماں یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاپا نے دادی کی طرف دیکھا،یہی تو ہمارا آخری سہارا ہے، اماں خدا کے لئے ۔۔۔۔۔۔پاپا نے ایک دم التجا آمیز لہجے میں دادی کو دیکھتے بہوئے کہا
تم اس لئے  منع کر رہے ہو کہ اسے بیچ کر اپنے لئے الگ گھر خرید لو مجھے پہلے ہی تم پہ شک تھا، تم الگ گھر لے کر مجھے ایدھی میں پھینک دو گے، تو کیوں نہ میں خود نیکی کر جاؤں ، دیکھو یہ بچے بھی کسی ماں کے ہیں!  یہ سدھر جائیں گے، تین بچے ہیں تینو کو یہ پیسہ ملے گا تو تینوں چوری سے توبہ کر لیں گے! میری آخرت سنور جائے گی، جاؤ جلدی لاؤ۔۔۔۔۔  چل آگے! پاپا مڑے تو ایک کالے کپڑوں والا ان کے ساتھ ہوگیا ۔ پاپا ایک کاغز لائے اور دادی کو دے دیا،
چل اب تو جا رجب، دادی نے تایا جانی کو مخاطب کیا۔۔۔۔جو ہکا بکا کھڑے تھے۔
اماں خدا کے لئے آپ سوچیں کہ پھر ہمارا کیا ہوگا۔۔۔۔
کیا ہو گا تمہارا ، نوکری کرو اور کھاؤ، تم تو چاہتے ہو کہ ہڈ حراموں کی طرح ماں کا پیسہ ہڑپ کر جاؤ اور اپنی ماں کو کسی   کے گھر چھوڑ آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔ لاؤ ۔۔۔۔۔جلدی جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں خدا کے لئے ۔۔۔۔۔ تایا رو پڑے تھے۔میں نے پہلی بار زندگی میں تایا اور پاپا اور چاچو کو یوں بچون کی طرح روتے دیکھا تھا اس لئے مجھ سمیت سب ہی رو رہے تھے۔
‘‘ہاں مجھے پتہ تو کیوں نہیں دے رہا میں نے خود سنا تھا ،تو کہہ رہا تھا اپنی بیوی سے کہ اماں کا یہ سیٹ ٹھیک ہو کر آجائے  تو ہم چھپا لیں گے، بیچ کے باہر چلے جائیں گے اور اماں کو !اماں کے بھائیوں کے پاس چھوڑ جائیں گے، چل جا لے کے آ جلدی،۔۔۔۔۔۔ دادی نے غصہ میں تایا تو دھکا دیا،،، تو تایا کمرے سے نکل گئے، کالے کپڑوں والاہی اس بار بھی تایا کے ساتھ گیا تھا۔۔۔۔
تایا نےفورأ ہی واپس آکر ایک کاغذ دادی کو پکڑا کر زمیں پہ بیٹھنے لگے تھے۔۔۔
او۔۔۔۔ او۔۔ کھڑا ہو بیٹھنا نہیں ہاتھ اوپر، نیلی جینز والے نے تایا کو ٹھوکر ماری۔۔۔۔ تایا کھڑے ہوگئے مگر اب تک انکی آنکھوں میں آنسو تھے،
چل اب تو بھی لادے ، میرے زیور کی رسید ، تو نے بھی فون پہ اپنے دوستوں سے کہا تھا نا کہ  میں تو شادی کرتے ہی الگ ہو جاؤں گا،اماں کا ہار میرے کام آئے گا، چل جا لے کر آ۔۔۔۔ میں اپنے لئے آخرت کا سامان کیوں نہ کر جاؤں تم لوگ پتہ نہیں مجھے کچھ بخشو گےیا نہیں۔۔۔۔ دادی نے چاچو کو حکم دیا۔۔۔۔
چاچو خاموشی سے چلے گئے اور ایک کاغذ لادیا۔۔۔۔
دادی ان لڑکوں کی طرف مڑیں اور ان کی طرف کاغذ لہرایا۔۔۔۔۔ اور کہپنے لگیں ‘‘ چلو جلدی، سنار نے کہا تھا کہ دس بجے آجانا، ورنہ پھر میں چلا جاؤںگا تو کل رات کو ہی کام ہوگا۔’’
سنار کو کہو یہاں آجائے زیور لے کے، کالے کپڑوں والے نے دادی کی طرف فون بڑھاتے ہوئے کہا۔
ارے ہم خاندانی لوگ ہیں ۔۔۔۔کرایہ کے گھر میں ہیں تو کیا ہوا جو کہتے ہیں اسکی پاس داری کرتے ہیں۔ ہم نے اسے زبان دی تھی کہ ہم دکان سے لینے آئیں گے اور وہ دکان والا میرے چاچا یا ماما کا بیٹا تھوڑی ہے جو یہاں آجائے،
چلنا ہے تو چلو ورنہ کل  تک یہاں ہی بیٹھو۔۔۔۔۔ دادی نے کاغذ تہہ کر کے اپنے دوپٹہ میں باندھ لئے۔۔۔۔۔۔
اچھا یہ رسید ہمیں دے دو۔۔۔۔ ہم خود لے آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔۔۔ دادی نے دوپٹہ سے رسید کھول کر اس کی طرف بڑھائی،جسے انہوں نے ایک دم جھپٹ کے چھین لی۔
یہ کیا ہے؟ ان رسیدوں میں تو بالیاں ، انگھوٹی، اور چوڑیاں ہیں، وہ بھی چاندی کی۔۔۔۔ کالے کپڑوں والا دھاڑا۔۔۔۔۔۔
ان کی قیمت کیا لکھی ہے، دادی نے بڑے آرام سے پوچھا۔
ہاں قیمت تو بہت زیادہ ہے،
یہ سب کوڈ ورڈ ہیں، کیوںکہ ان سیٹوں کی صرف مرمت کروانی تھی، اور اس کو سنار کےمزدوروں سے بھی چھپانا تھا اس لئے ایسا لکھا ہے۔ دادی نے کہا ۔
ورنہ اگر مذدوروں کو پتہ چل جاتا تو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دادی نے ان کی طرف دیکھا اور وہ رسیدیں ان سے واپس لے لیں تم اگر رسید بھی لے جاؤ تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا ، جب تک میں خود نہ جاؤں۔۔۔۔ دادی نے فخر سے کہا۔
وہ تینوں آپس میں مشورہ کرنے لگے،،،،
اچھا چلو آپ ہمارے ساتھ چلو۔۔۔۔۔۔ تیںوں نے دادی سے کہا۔۔۔۔
ہاں ہاں چلو۔۔۔۔۔۔ مگر یہ سامان تو چھوڑ جاؤ ورنہ دیکھتے ہی پہچان لئے جاؤ گے کہ کون ہو ۔۔۔۔۔۔۔ دادی نے ان سے کہا۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں ہم اسے گاڑی میں رکھ لیں گے۔انہوں نے سارا سامان اٹھا لیا جو انہوں نے ہمارے گھر سے سمیٹا تھا۔۔۔۔۔۔ اور دادی کے ساتھ باہر نکلے۔۔۔۔۔
امااں آپ اکیلی نہ جائیں یہ زیور لے کے آپ کو مار نہ دیں کہیں آپ عید کو ساتھ لے جائیں۔۔۔۔۔ پاپا نے مجھے آگے کی طرف بڑھایا
نہیں  میں اکیلی کافی ہوں دادی نے چلتے چلتے اچانک مڑ کر پاپا کو دیکھ کر پتہ نہیں کیا اشارہ کیا جسے میں سمجھ نہیں پایا اور نہی وہ تینوں دیکھ پائے۔
کوئی چالاکی نہیں چلنا ورنہ بڑھیا کو مار ڈالیں گے، تینوں نے باہر نکل کے دروازہ بند کر دیا اور باہر سے تالا بھی لگا دیا۔ وہ اپنے ساتھ ہمارے گھر کے سارے موبائل فون لے گئے تھے،
مگر دادی کا ٹیلی فون جیسے ہی یاد آیا سب نے دادی کے کمرے کی طرف دوڑ لگادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ٹیلیفون کا ریسیور کا تار کٹا ہوا ہے تو سب کے چہرے لٹک گئے۔مگر چاچو پتہ نہٰیں کیوں ایک دم اچھل کر کھڑے ہوئے اور اپنے کمرے کی  طرف بھاگ گئے اور ان کے پیچھے پاپا اور تایا تھے اور ان کے پیچھے   ممی اور میں اور ہمارے پیچھے باقی سب بھاگے تھے کہ کیا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے کے بعد دادی فاتحانہ انداز میں گھر میں داخل ہوئیں تو سب دوڑ کر ان سے لپٹ گئے، سب کے سب رو رہے تھے، اتنے میں دروازے پہ بیل بجی، جاؤ مرتضٰی دیکھو دروازہ پہ جاوید ہوگا، دادی نے چاچو کی طرف اشارہ کر کے کہا
آیئے آیئے۔۔۔۔۔۔ چاچو ایک آدمی کو لے کرڈرائنگ روم میں داخل ہوئے
بہت شکریہ آپکا آپا آپ نے وہ کام کر دیا جو ناممکن تھا، جاوید انکل نے ڈرائنگ روم  نے بیٹھتے ہوئے کہا۔، وہ دادی کے کزن تھے،  ،وہ پولیس میں ایس ایچ او تھے۔اور اس وقت وہ پولیس کی وردی پہنے ہوئے تھے
کیا کام؟ پاپا نے پوچھا۔
ارے آپا  نے ڈاکوؤں کا ایک گروپ پکڑوایا ہے اب انکی مدد سے انکے گروپ کے بقایا افراد  بھی پکڑے جائیں گے،
مگر یہ سب ہوا کیسے ؟ پاپا نے میرے دل کی بات کہی میں بھی یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا ہوا۔
مصطفٰی صاحب ۔۔۔۔ جس سنار سے آپ کی اماں نے سونا بنوایا تھا اس سے خریدنے کی نہیں بلکہ مرمت کی رسید لی تھی اور وہ بھی چاندی لکھوا کر قیمت جبکہ سونے کی تھی، اور سنار کو کہہ چکی تھیں کہ اگر میں یہ رسید ساتھ لاؤں توتم خاموشی سے ،میری باتوں کو سننا اورسامان لینے کے بہانے جاکر فورأ پولیس بلوا لینا اورپھر ایسا ہی ہوا۔ انکل نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا۔اور کولڈ ڈرنک جو چاچو نے ان کے لئے ہی نکالی تھی ایک ہی دفعہ میں پوری کی پوری پی گئے۔
تو کیا آپ کو پتہ تھا کہ ایسا ہو گا؟ میں نے دادی کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے گھٹنے پہ منہ رکھ کر پوچھا۔
ہاں بیٹا آج کل پورے محلے میں وارداتیں بہت ہو رہی ہیں اور پھر ہمارے گھر میں شادی ہو رہی ہے سب کو معلوم ہے،کوئی بھی چور اچکا آسکتا ہے، اس لئے میں نے یہ کام کیا تھا،
اور تو اور انہوں نے وہ رقم بھی ان سے نکلوا لی جو وہ یہاں سے چرا کر نکلے تھے، جاوید انکل نے  کولڈ ڈرنک کی دوسری بوتل کو تکتے ہوئے کہا،
کیا واقعی؟ چاچو نے بے یقینی سے پوچھا۔
ہاں میں کیوں چھوڑتی میرے بچوں کی خون پسینہ کہ کمائی ہے، حرام تھوڑی کماتے ہیں جو چھوڑ دیتی، دادی نے غصہ سے کہا،
مگر کیسے نکلوائی؟ میں نے تجسس سے پوچھا،
دادی نے میرے بالوں میں انگلیوں سے  کنگھی کرتے ہوئے پہلے تو خاموشی سے سب کو دیکھا پھر ایک دم کھڑی ہو گئیں اور پھر بولیں‘‘میں انکو سنار کے پاس لے گئی اور سنار سے کہا میری چیزوں کی مرمت ہو گئی؟
اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا  رسید لائی ہیں؟ میں نے رسید اس کی طرف بڑھائی اس نے رسید لی اور کہنے لگا،میں دیکھ کر آتا ہوں بنے یا نہیں؟  پھر وہ اندر کارخانے کی طرف چلا گیا اور چار پانچ منٹ میں واپس آگیا،مجھے رسید واپس دی اور کہا پیسے لائی ہیں مرمت کے؟
میں نے کہا ہاں یہ میرے بیٹے ہیں ان کے پاس ہیں ۔۔۔۔
پھر کیا اماں؟ تایا نےبے قراری پوچھا
پھر انہوں نے پوچھا کتنے ؟ میں نے فورأ کہا ایک لاکھ پچاس ہزار چھ سو،
اوہ! اتنے ہی پیسے وہ لے گئے ہیں ،چاچو نے کہا،
پھر سنار نے کہا کہ اس میں ، میں نے کچھ سونا بھی ڈالا ہے، اس کی قیمت بھی دے دیں ، میں نے کہا اب پیسے تو نہیں ہیں سونے کی چوڑیاں اور بالیاں ہیں پتہ نہیں ہے وہ اس قیمت کی ہیں یا نہیں جس کا آپ نے سونا ڈالا ہے، دادی خاموش ہو گئیں اور پانی کی بوتل اٹھائی اورگلاس میں پانی ڈال کر پینے لگیں،
پھر دادی،مجھ بسے دادی کی خموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
پھر میں  نے اس نیلی جینز کی پینٹ والے کی طرف اشارہ کیا اس نے  فورأ اپنی پینٹ کی جیب سے وہ سب نکال کر سنار کی ٹیبل پہ رکھ دیا اس نے تولا اور کہنے لگا یہ تو کم ہے، میں نے کہا اب آپ ایسا کریں کہ میرے سیٹ دے دیں اور باقی کے پیسے رسید پہ لکھ دیں میں شادی کے بعد دے دوں گی، دادی نے گلاس میز پہ رکھ  دیا اور پھر تایا کے برابر میں جاکر بیٹھ گئیں۔
اچھا پھر،چاچو نے پوچھا،
پھرمیں نے سنار سے کہا کہ میرے تینوں سیٹ میرے ان بیٹوں کو دے دینا میں نے ان کی تینوں کی طرف  اشارہ کر کے کہا
سنار نے کہا ٹھیک ہے میں دے دوں گا،
کتنی دیر لگے گی، کالے کپڑوں والے نے پوچھا،
بس چار سے پانچ منٹ، اصل میں سیٹ میں گلے میں پہننے والی ڈوری میں پیچھے کا ہک لگا رہے ہیں۔لگا لیں تو ابھی دیتا ہوں، سنار نے کہا،
اوکے بیٹوں میں چلتی ہوں میں نے ان تینوں کی طرف دیکھا،
رک جائیں ساتھ ہی چلیں گے،داڈھی والے نے میرا راستہ روکتے ہوئے کہا
ارے جانے دوانکو کیا کرنا ہے انکا، کالے کپڑوں والے نے کہا، سیٹ لے کر جانے میں آسانی ہوگی، ورنہ کہیں بڑھیا اپنے سیٹ دیکھ کر چلانے یا چیخنے نہ لگے ، نیلی جینز والے نے آہستہ سے کہا،
پھر کیا ہوا اماں تایا نے دادی کے کاندھے پہ سر رکھ کر پوچھا،
بیٹا مجھے زرا پانچ ہزار دینا، میں نے کالے کپڑوں والے سے کہا،
اوہ تو کیا دیئے اس نے؟پاپا نے  جاوید انکل کو دوسری کولڈ ڈرنک کی بوتل دیتے ہوئے پوچھا۔
ہاں اس نے فورأ جیب سے نکال کر دے دیئے، میں نے داڈھی والے سے بھی پانچ ہزار مانگے، پھر نیلی جینز والے سے بھی، تینوں نے مجھے جلدی جلدی پیسے دے دیئے، پھر میں نے تینوں کو خدا حافظ کہا اور سنار کو تاکید کی کہ ان کو سیٹ زرا اچھی طرح لپیٹ کر دینا تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، اور ان تینوں کو بھی نصیحت کی کہ سیٹ کو حفاظت سے گھر لانا،
پھر کیا ہوا دادی؟ میں نے بے تابی سے پوچھا
پھر کیا ہونا تھا۔۔۔۔ پہلے تو میں خالہ زیبو کے گھر چلی گئی اور اب تمہارے سامنے ہوں۔۔۔۔ وہ مسکرائیں اور انہوں نے مجھے چائے لانے کا اشارہ کیا اور میں بادل نخواستہ اٹھ کر باہر چلا آیا ممی سے چائے  بنانے کا کہا اور فورا دادی کے پاس آگیا۔
آپ خالی زیبو کے گھر کیوں گئیںتھیں پاپا نے پھر سوال کیا۔
اس کی بیٹی کی طبیعت خراب تھی اور اسے پیسوں کی ضرورت بھی تھی، میں نے وہ پندرہ ہزار اسے دے دیئے، اور اس کے بیٹے کے ساتھ گھر آگئی۔
آپ نے کیسے پکڑا انکو؟ پاپا نے جاوید انکل سے پوچھا
مجھے سنار نے فون کر دیا تھا، میں اس وقت پہنچا جب اماں ان سے پیسے لے رہی تھیں ، پھر انکوکچھ سمجھا رہی تھیں جیسے ہی اماں باہر نکلیں ہم نے فورأ اندر داخل ہو کر انکو پکڑ لیا۔
پر دادی ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔۔
وہ کیا؟
یہ رمضان، شعبان اور رجب۔۔۔۔ یہ کیا ہے، میں نے آہستہ سے کہا تھا مگر
پاپا تایا اور چاچو ہنسنے ۔۔۔
بیٹا ان مہیئوں میں انکی برتھ ڈے ہے نا ۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے ان مہینوں کے نام لئے، اور اس طرح وہ سمجھے کہ وہ غلط جگہ آگئے، اسی سے میں نے فائدہ اٹھایا۔دادی ہنسنے لگیں۔
اور وہ جو آپ نے پاپا ،تایا اور چاچو سے کہا تھا وہ؟ چھوڑنے والی باات، میں نے غمگین لہجے میں کہا۔
وہ میں نے اس لئے کہا تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں اپنے بچوں سے بہت محبت کرتی ہوں وہ یہی سمجھیں کہ میں گھر سے اور بچوں سے بیزار ہوں، اور اسی وجہ سے وہ میری باتوں میں آگئے۔
اور آپ نے پاپا کو اشارہ کیا ، کیا تھا؟
میں بتاتا ہوں اس اشارے کا مطلب تھا فون کرو، اور ہم نے ان کے جاتے ہی سنار کو فون کیا تھا اور جاوید کو بھی،
پر آپ نے ایک کام تو غلط کیا نا میں نے دادی سے کہا
وہ کیا؟
آپ نے ان سے پیسے کیوں لئے؟اور اگر لئے تھے تو زیبو آنٹی کو کیوں دیئے؟
وہ اس لئے لیے تھے کہ انہوں نے ہمارے گھر کا تالا توڑا، مرتضٰی کو دو بار مارا، سدرہ کی گردن پہ ٹی ٹی سے حملہ کیا اور سب کے موبائل لے گئے۔۔۔تو یہ اس کے بدلے کے طور پر لئے ہیں، دادی نے سمجھایا تو میں مطمئن  ہو گیا،اور ممی کے پاس کچن میں آگیاچائے لینے کے لئے۔
جاوید انکل دادی کی بہن کے بیٹے ہیں۔جب بھی آتے ہیں نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں بس کولڈ ڈرنک ہی پیتے ہیں دادی زبر دستی کھانے پہ روکتی ہیں تو بس ایک آدھ نوالہ لے کراٹھ جاتے ہیں ۔اس وقت بھی انہوں نے ڈیڈھ لیٹر کی بوتل ختم کرلی تھی اور پھر  چاچو نے ان کے لئے دوبارہ کولڈ ڈرنک  منگوائی جاوید انکل جب آتے بس ان کے لئے کولڈ ڈرنک آتی رہتی ہے اس دکان سے جو ہماری گلی میں ہے جب ایک سے دوبار کوئی کولڈ ڈرنک لینے جائے تو، وہ سمجھ جاتا ہے کہ دادی کا بھانجا آیا ہے بس وہ کسی اور کو کولڈ ڈرنک نہیں بیچتا ہمارے گھر ہی بھیج دیتارہتا ہے۔ جب تک انکو منع نہ کیا جائے کہ بس! دادی جاوید انکل سے کہتی تھیں اب تو تمہارے جسم میں خون  کےبجائے کولڈ ڈنک ہی دوڑرہی ہو گی۔
مگر وہ مانتے ہی نہیں تھے۔ انکل رات کو کھانے پہ رک تو گئے مگر کھایا انہوں نے وہی چڑیا کے بچے کی طرح اور جاتے وقت دادی نے ان سے پکا وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی میں ضرور جائیں گے۔  اور انکل نے اس وعدہ پہ جانے کی حامی بھری تھی کہ وہ راستے بھر کولڈ ڈرنک پیئیں گے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔۔
پاپا نے کہا بہت اچھی بات ہے ہم کریٹ منگوا لیں گے آپ کے لئے۔
وہ خوش ہوگئے اور دعائیں دیتے ہوئے گئے کہ خدا تمہیں کولڈ ڈرنک کی کمپنی کا مالک بنادے۔
انکل کے جانے کے بعد دادی نے ہم سب کو ایک جگہ بلا کر سب کا صدقہ نکالا اور کہا کہ دیکھو خطرہ تو ہر جگہ ہے، لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، عباس ٹاؤن کا حادثہ دیکھ لیں، اور خود آج ہمارے گھر کی واردات، اس لئے بس خدا سے مدد مانگتے رہیں اور امام ذمانہؑ سے توسل کرتے رہیں، وہ اللہ ہماری ہر مشکل میں مدد کرے گا اور بس،
اماں میں بھی اب یہ بات سمجھ گئی ہوں ، اب آپ دیکھئے  گا آپ کی بیٹی اب سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرے گی، ممی نے مظبوط لہجے میں کہا۔
ہاں بسس اللہ سے ڈرو اور اس پہ بھروسہ رکھو، وہ ہر مشکل سے نکلنے کے اسباب پیدا کر دیتا ہے، اب تم لوگ جاؤ میں اب آرام کروں گی، دادی نے سب کو جانے کا اشارہ کیا تو ہم سب اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شام میں دادی نے ہم سب سے امام رضا ؑ کی کہانی سنی اور جس نے پوری پوری کہانی لکھی تھی  اسے دادی نے تسبیح دی اور جس نے سستی کی تھی یا کہانی ادھوری لکھی تھی دادی نے اسے ایک چاکلیٹ پہ ٹرخا دیا تھا اور مجھے، چاچو کو اور جواد ، نازیہ، زاہدہ، حمنہ، فاطمہ ، صائمہ ، کامران ، فائز،شبیب، علی،داور، شبراور شازیہ کو تسبیح ملی مجھے پنک تسبیح دی تھی دادی نے جو میں نے فورا اپنی آنکھوں سے لگا لی میری یہ حرکت اتنی اچانک اور نیچرل تھی  سب ہنس پڑے تھے۔ اور میں بھی شرمندہ ہوگیا تھا مگردادی نے مجھے پاس بلا کر میری اس بات کو سراہا اور کہنے لگیں کہ اب پہ خوب ذکر پڑھو تاکہ اس کا رنگ اور نکھر جائے اور یہ تسبیح اور خوبصورت ہو جائے۔ میں نے دادی سے پرامس کیا کہ میں اس پہ ذکر پڑھوں گا اور اسکو وہاں ٹانگ دوں گا جہاں میں نے اپنا روزانہ کا شیڈول لکھ کے ٹانگا ہوا ہے۔
دادی یہ سن کے بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اب تم اچھے بن گئے ہو اچھے بننا تو آسان ہے مگر ہمیشہ اچھے بنے رہنا مشکل ہے۔ مگر تم تھوڑی سی محنت کرو گے تو تم ہمیشہ اچھے  بنے رہ سکتے ہو۔ بس اللہ سے دعا اور مدد مانگتے رہو اور امام زمانہ ؑ سے توسل کرتے رہو۔ ٹھیک ہے نا بیٹا؟
جی دادی میں نے ان ہاتھوں کو چوم لیا تھا۔
اب جائو بھئی سب سونے کے لئے۔  دادی نے اعلان کیا اور ہم سب اپنے اپنے کمروں میں چلے آئے ممی نے تسبیح دیکھی ان کو بھی پسند آئی۔
پاپا کو بھی پسند آئی پاپا کہنے لگے آپ یہ مجھے دے دیں ۔
میں نے فورا پاپا کو دے دی تو پاپا ہنسنے لگے بانو تمہارا بیٹا تو بانو تمہارا بیٹا تو بالکل تم پہ گیا ہے۔
ممی بھی ہنسنے لگیں یہ مجھ پہ نہیں بالکہ اماں پہ گیا ہے۔۔۔۔سخی دل ۔۔۔ کھلے ہاتھ کا اور دیالو۔۔۔۔۔
ہاں واقعی وہ بہت اچھی ہیں ۔۔۔۔۔۔پاپا نے دادی کی تعریف کی تو مجھےبہت اچھا لگا۔
میرے امی بھی ایسے ہی تھیں۔۔۔۔۔ سخی دل ہر چیز ہر ایک کے لئے حاضر۔۔۔۔  کنجوسی کبھی نہیں کی انہوں نے۔۔۔ممی کو اپنی امی یاد آرہی تھیں۔
ہاں کنجوسی کر کے کیا ملتا ہے ہر چیز ایک نہ ایک دن تو ختم ہونی ہے تو کیوں نہ وہ چیز اللہ کی راہ میں دے کر ثواب بھی کمالیا جائے اور نیکی بھی ہو جائے۔  پاپا کی بات مجھے سمجھ آگئی تھی۔
میں نے اماں سے سنا ہے کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو اور اس کی ضرورت ہم پوری کرسکتے ہوں اور ہم نہ کریں تو وہ چیز جس کی کسی کو ضرورت تھی تو اس میں سے اللہ برکت ہٹا لیتا ہے ۔۔۔۔۔
اچھا وہ کیوں؟ پاپا ایک دم چیئر سے اتر کر ممی کے پاس آگئے تھے اور میں بھی ۔۔۔
وہ اس لئے کہ اس کی ضرورت کسی اللہ کے بندے کو تھی، اور ہم نے اللہ کے بندے کو مایوس کردیا، وہ جب مایوس جائے گا تو اللہ کو اچھا نہیں لگے گا، اس لئے وہ اس چیز کی برکت ختم کر دےگا۔
تو ممی اگر ہمیں بھی اس کی ضرورت ہو اور کسی اور کو بھی تو ہم کیا کریں؟ میں نے ممی کی باتیں غور سے سنیں تھیں اس لئے فورا سوال کیا۔
تو بیٹا دیکھنا پڑے گا کہ زیادہ کسے ضرورت ہے ہمیں یا اسے؟ اگر اسے ضرورت زیادہ ہے تو اسے دے دو، اگر ضرورت ہمیں زیادہ ہے تو اس سے مہلت مانگ لو کہ یہ چیز میں آپ کو اتنے عرصے میں دے دوں گا۔۔۔
مثلا؟ میں نے پھر پوچھا
مثلا تمہارے پاس ایک پین ہے  اور تم کلاس ورک کر رہے ہو اور کسی کا پین کھو گیا  یا ٹوٹ گیااور اس نے تم سے کہا کہ زرا اپنی پین دے دو۔۔۔۔۔ اب منع کرو گے تو گناہ ہے۔۔۔۔۔ تم یہ بھی نہیں سکتے کہ تمہیں بھی اپنا کام کرنا ہے۔۔۔۔ہاں  تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں کام کر لوں پھرتمہیں دے دوں گاتو پھرتم کام کر لینا۔۔۔۔ اس طرح تمہارا کام بھی ہو جائے گا اس کا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممی نے جب سمجھایا تو میں نے کہا‘‘ لو اس طرح تو میں یہ گناہ بہت کر چکا ہوں اب میں کیا کروں ؟ میری کلاس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کبھی کسی کا پین کبھی کسی کی پنسل کبھی کسی کا ربر کبھی کسی کا شاپنر کھو جاتا ہے اور میں چونکہ اپنا کام کر رہا ہوتا ہوں تو کسی کو نہیں دیتا۔ میں نے اداسی سے کہا۔۔۔۔۔ اچھا اسی لئے میری پرسنٹیج کم آتی ہے۔۔۔۔۔
اب تک جو ہوچکا سو ہو گیا اب تم اللہ سے معافی مانگ لو۔۔۔۔ ممی نے کہا۔
اور یہ غلطی مجھ سے بھی ہوگئی ہے پاپا ایک دم بولے۔۔۔۔۔
کیا مطلب؟ممی نے حیرت سے پوچھا۔
میرا اسسٹنٹ ہے نا اس نے کل کہا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی ہے اسے پچاس ہزار ادھار چاہیئے میں نے کہا کہ خود میرے بھائی کی شادی ہے دو دن بعد اس لئے میں نہیں دے سکتا۔۔۔۔ پاپا اب پریشان ہو رہے تھے۔۔۔۔ اب اگر اس شادی میں برکت نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟؟؟؟؟ جانا بھی ہمیں لاہور ہے اتنی دور ۔۔۔۔۔۔ اوہ میرے خدا۔۔۔۔ میں کیا کروں پاپا سر جھکا کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔اب اس مسئلے کا حل کیا ہو گا ممی اور میں بھی پریشان ہوگئے۔۔۔۔
دادی کے پاس چلیں شاید وہ حل بتادیں میں نے پاپا کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔
آں  ۔۔۔۔ہان۔۔۔۔۔ ہاں چلو۔۔۔۔۔ ممی پاپا اور میں دادی کے کمرے میں آگئے دادی اس وقت قرآن گود میں رکھے پڑھ رہی تھیں ۔۔۔ ہمیں دیکھا تو قرآن بند کر کے تکئے پہ رکھ دیا اور ہمیں بیٹھنے کا اشاشرہ کیا ۔۔۔ پھر دادی نے اٹھ کر فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس بھر کر پانی نکالا اور اس پہ دم کر کے ڈھک کر رکھ دیا۔۔۔۔پھر دوبارہ اپنے تخت پہ بیٹھ گئیں
ہاں کیا ہوا بیٹا اس وقت تم تینوں میرے کمرے میں کیوں آئے؟ یہ دادی کی نماز اور دعائوں کا وقت تھا۔
پاپا نے اپنا مسئلہ بتایا تو دادی ایک دم کھڑی ہوگئیں۔۔۔ اور کمرے میں ٹہلنے لگیں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے دونوں ہاتھ کمر پررکھے ہوئے تھے انکے دانت سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔۔۔۔ اور چہرہ پہ سوچ کی لکیریں واضح تھیں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔۔۔ ہوں انہوں نے گویا کچھ سوچ لیا تھا۔۔۔۔ کل صبح اسے یہاں بلا لو۔۔۔۔۔ سید شایان حیدر کل اسے یہاں بلائو صبح دس بجے ٹھیک دس بجے۔۔۔۔۔ سمجھے اب جائو ۔۔۔۔ جب دادی غصے میں ہوتیں تھیں تو پاپا کا پورا نام لیتیں تھیں جس سے ہم سمجھ جاتے تھے کہ دادی ناراض ہیں ۔۔۔  اور ہم تینوں اپنے کمرے میں آگئے اور مجھے یاد ہے اچھی طرح ساری رات ہم تینوں بس بستر پہ کروٹ بدلتے رہے نیند ہم تینوں کو نہیں آئی تھی۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی پاپا نے اپنے اسسٹنٹ کو فون کیا کہ میرے گھر آجائو دس بجے کچھ کام ہیں چھٹی کی اپلیکیشن وٖغیرہ آفس بھیجنی ہے اور کچھ کام ہیں تم سے۔۔۔۔
پاپا نے بتایا کہ وہ آجائے گا دادی کا سامنا پاپا نہیں کر پارہے تھے۔۔ اس لئے اپنے کمرے سے ہی نہیں نکلے۔۔۔۔ ناشتہ بھی ممی نے انکو کمرے میں لادیا تھا۔۔۔۔
دس بجے ڈور بیل بجی تو میں بھاگ کر دروازے پہ گیا پاپا کا آفس کا اسسٹنٹ تھا۔ میں نے انکو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔پاپا اور دادی کو بتایا دادی نے کہا پاپا کو میرے پاس بھیجو اور ممی سے کہو مہمان کو ناشتہ دیں اورتم چاچو سے کہو کہ مہمان کے پاس بیٹھ کے ان سے باتیں کریں ۔۔۔۔۔۔
میں نے جلدی جلدی دادی کے پیغام سب کو دئیے اور دادی کے کمرے کے باہر چھپ کے کھڑاہوگیا کہ دادی پاپا کو کیا کہتی ہیں۔۔۔ تھوری دیر تک تو کوئی آواز نہیں آئی  پھر دادی کی آواز ابھری سید شایان حیدرایک بے چارا تم سے ادھار ماننگنے پر کیوں مجبور ہوا؟ کیا تمہیں اس نے نہیں بتایا تھا کہ اسکی بیٹی کی شادی ہے، دادی آواز میں اتنی گرج تھی کہ میں ڈر  گیا۔۔۔۔
بب۔۔۔بتایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پاپاکی آواز میں بے چارگی تھی۔
تو تم نے اسکو اپنے اکاؤنٹ سے پیسے کیوں نہیں دیئے؟کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ جبھی میں کہوں کہ بانو نے میرے فیصلہ کی مخالفت کیوں کی؟ میرے گھر پہ ڈاکو کیوں آئے؟ ابان سب کے جوابات مجھے مل گئے۔۔۔۔
 میں نے نمازحاجت پڑھ کر دعا مانگی تھی اللہ نے وہ سن لی کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ میرے گھر کے ایک فرد کے غلط فیصلہ کی وجہ سے یہ سب  ہوا ہے۔
بیٹا جب ہم اپنی شادی پہ لاکھوں خرچ کر سکتے ہیں تو کسی غریب کے لئے چند ہزار کیوں نہیں دے سکتے۔ یہ لو ۔۔۔۔۔۔ یہ ساٹھ ہزار ہیں یہ اسکو دے دو ۔۔۔۔ مگر احسان نہ جتانا۔۔۔۔۔۔۔ قرضہ نہ کہنا، واپس نہ مانگنا، کبھی اسے یاد نہ دلانا۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ڈرائنگ روم میں ہے۔۔۔۔ غصہ سے نہیں دوستانہ انداز میں بات کرنا ٹھیک ہے؟
جی ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاپا باہر کی طرف مڑے اور میں تیر کی طرح اپنی جگہ سے ہٹااور جونہی مڑ کر بھاگا سامنے دیوار کے ساتھ رکھے گملے سے ٹکرا کر گر گیا۔
ارے سنبھل کرتایا جانی نے مجھے گرتے ہوئے پکڑلیا ورنا میں گرتا تو سر پھٹ جاتا
 اوہ سوری میں نے تایا جانی کا شکریہ ادا کیا
ویسے کسی کی بات چھپ کر سننا گناہ ہے سمجھے! تایا نے سخت لہجے میں کہا اور مجھے حیران پریشان چھوڑ کر چلےگئے اور میں واقعی شرمندہ ہوگیا یہ حرکت میں نے پہلی بار کی تھی اور تایا جانی کی تنبیہ سن کر عہد کر لیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروںگا۔
شام میں دادی بہت خوش پاپا بہت چہک رہے تھے جبکہ میں شرمندہ شرمندہ تھا۔۔۔۔اور چاچو ان کا تو پوچھیں نہیں کیونکہ کل انہیں دولہا بننا تھا نا تو انکی ہنسی کسی پل رکتی نہیں تھی۔۔۔۔۔ اور یہ رات ہم سب کےلئےبہت ایکسائٹڈ تھی۔۔۔۔
اس رات ہمارے گھر میں رت جگا ہوا۔۔۔۔۔۔ پہلے دعائے ندبہ ہوئی پھرمیلاد ، میلاد کے بعد کھانا ہوا کھانے کے بعد ایک گھنٹے کا بریک دیا اور جب ہم بریک کے بعد آئے تو دادی نے پروجیکٹر پر آسمانی بچے فلم لگادی ہم سب بچے وہ فلم دیکھ کر بہت خوش ہوئے پھر ایک عجیب سے نام کی فلم لگائی‘‘ اخراجہا ’’ اس فلم کو دیکھ کر سب کا ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا بس آخر میں تھوڑا سا برا لگا جب ہیرو شہید ہوگیا اسکا پارٹ ۲ لگایا تو پھر سب ہنستے ہنستے بےحال ہو گئے اس فلم کے بعد میں نے دیکھا سب بچے جہاں بیٹھ کے فلم دیکھ رہے تھے وہیں سو گئے تھے۔۔۔ پاپا ،تایا اور چاچو نے سب کو اٹھا کر ان کے کمروں میں پہنچا دیا۔
پھر چاچو مجھ سے کہنے لگے ہاں جوان تم کب سووئے گے؟
میں نے کہا چاچو نمازِ فجر پڑھ کے۔۔۔۔
 تم پہ ابھی فرض نہیں ہے جاؤ جاکے سو جاؤ۔۔۔۔ پاپا نے کہا
فرض نہیں ہے پاپا لیکن مستحب تو ہے نا۔۔۔۔۔ میں نے اٹھلا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔میں کیوں فائدہ سے محروم ہوجاؤں۔۔۔۔
فائدہ؟ چاچو نے مجھے گھورا
دادی کہتی ہیں جو بچے واجب ہونے سے پہلے نماز پڑھتے بہیں ان کو بہت زیادہ ثواب ملتا ہے بڑوں سے زیادہ۔۔۔۔۔۔ آپ سے بھی زیادہ دادی سے بھی زیادہ اس لئے میں تو ہر نماز پڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے چاچو کو انگوٹھا دکھا کر کہا
اچھا ! کاش میری بھی تمہاری دادی کی طرح کی دادی ہوتیں۔۔۔۔ چاچو آہ بھر کر کہا۔۔۔۔
تو کیا ہوا میری دادی کو آپ اپنی دادی بنالیں۔۔۔۔۔ میں نے مشورہ دیا۔تو سب کے سب ہنسنے لگے میں نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا سب ہنس رہے تھے مگر مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔ ابھی میں کچھ اور سوچتا یا چاچو سے پوچھتا بریک ہی ختم ہوگئی۔۔۔ فلم کے بعد دادی نے کہا کہ سب ہاتھ منہ دھو لیں وضو کرلیں پھر سب کو رول پراٹھا اور چائے ملی اور پھر دس منٹ کے بعددعائے توسل ہوئی تو پھر دادی نے تایا جانی سے کہا کہ نماز پڑھائیں۔ اسی صحن میں دری پہ تائی جانی جانماز بچھا چکی تھیں تایا جانی نے نماز پڑھائی ۔
پھر دادی نے کہا سب جاکے سو جاؤ لیکن دس بجے سب سو کر اٹھ جانا کیوںکہ شام میں تیاری اور رات کو عشاٗ کے بعد روانگی ہے۔ 
ہم سب کمروں میں آگئے اور اپنے اپنے بستروں پہ لیٹ گئے اور پتہ نہیں کب میں سو گیا۔

 شادی کے لئے ہم سب کو لاہور جانا تھا۔ اس لئے دادی نے سب بچوں کو سب باتیں یاد کروادیں تھیں اورہمیں ہر بات زبانی یاد تھی۔ ہلہ گلہ نہیں کرنا بد تمیزی نہیں کرنی کسی کو تنگ نہیں کرنا، کھانا نہیں مانگنا، پانی نہیں مانگنا، چیز نہیں مانگنا اور پیسے کسی سے نہیں لینا۔ سفر میں اور لاہور میں اپنی اپنی ممی کے ساتھ یا پپا کے ساتھ رہنا ہے۔ کوئی اجنبی بلائے یا کوئی چیز دے تو نہیں لینا۔ کوئی آکے کہے کہ پاپا بلا رہے ہیں یا مما یا دادی تو نہیں جانا کسی حالت میں بھی۔
گاڑی میں سامان رکھا گیا ااسٹیشن پہ جانے کے لئے۔اور پھر ہم سب گاری میں اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔دادی نے کہا تھا کہ میں گاڑی میں ہی ملوں گی۔ دادی ہمارے ساتھ گاڑی میں نہیں آئیں تھیں سارا سامان ہمارے ساتھ تھا۔ ہم اسٹیشن پہنچے تو ہمارے خاندان کے سبھی لوگ موجود تھے۔سب ایک دوسرے سے گلے ملے اور  حال احوال پوچھاتو معلوم ہوا کہ جاوید انکل نہیں آئے وہ ہسپتال میں ہیں ان کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں پاپا نے کہا کہ اتنی کولڈ ڈرنک پیئیں گے تو ایسا تو ہوگا ۔
پھر سب اپنی اپنی بکنگ کے مطابق ٹرین میں بیٹھتے گئے۔آخر میں ہم تینوں بھی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پاپا نے سامان اٹھا کر اوپر برتھ پہ رکھ دیا تھا۔ میری سیٹ کھڑکی کے پاس تھی۔ تایا تائی نازیہ، فائز اور سبیکہ ہمارے برابر والی بوگی میں تھے۔ کبھی ہم وہاں جاتے کبھی وہ ادھر آجاتے۔ اسی طرح ٹائم گزر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھی عورت آکر ہماری بوگی میں بیٹھ گئی عجبیب سی تھی اس کے ہاتھ میں دو پوٹلیاں تھیں اور ایک پاندان اور بہت ساری پلاسٹک کی تھیلیاں تھیں اس نے مجھے اشارہ سے بلایا ائے بیٹوا ادھر آ۔۔۔۔۔ میں نے ممی کی طرف دیکھا
جاؤ بیٹا ۔۔۔۔۔ ممی نے اشارہ کیا تو میں اس کے پاس آگیا جی انٹی ۔۔۔۔۔۔۔
ائے ہئے میں تیرے کو انٹی لگو ہوں انٹی ہوگی تیری ا ماں تیری بہن تیری خالہ تیری مامی تیری چاچی تیری اماں کی اماں تیری محلے والی تیری پڑوسن تیری۔۔۔۔۔۔۔اس سے  پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں بھاگ کر اپنی جگہ پاس آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ائے ہئے ادھر آ۔۔۔۔ بٹوا ایک مرا کام کر دے۔۔۔۔۔۔۔
ممی نے کہا جاؤ پر میں نے کھڑکی سے سر باہر نکال لیا۔۔۔۔۔
کیسا ناخلف بٹوا ہے تیرا۔۔۔ تیری بات نہ مانے ہئے۔۔۔۔۔۔
ادھر آ۔۔۔۔ادھر آ۔۔۔۔۔۔ بوڑھی نے آواز دی
جی۔۔۔کہیے! میں  پھر ان کے پاس گیا۔۔۔
انٹی نے پلاسٹک کی ایک تھیلی نکالی اور اس میں پان کی پیک تھوک دی تھیلی کا منہ بند کیا اور اس پہ ربڑ بینڈ لگایا پھر میری طرف بڑھایا یہ لے بٹوا اسے کھڑکی سے باہر پھینک دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈبہ میں بھیٹھے ہو ئے سب لوگ منہ پھیر کے ہنسنے لگے۔۔۔۔ کیوںکہ وہ بوڑھی عورت خود بھی کھڑکی کے پاس ہی سب کو ہٹا کرزبردستی بیٹھی تھی اور مجھے کہہ رہی تھی کہ میں اس کی پان کی پیک  کھڑکی سے باہر پھینک دوں میں نے وہ تھیلی چھوئی بھی نہیں اور بھاگ کر ممی کے پاس آگیا۔۔۔ اس بوڑھی نے وہ تھیلی اپنے پوٹلیوں میں  رکھ دی۔۔۔۔جتنے بھی لوگ ڈبے میں تھے سب گھن کرنے لگے بوڑھی عورت سے۔۔۔ مگر
تھوڑی دیر بعد چائے والا آیا تو ممی اس سے چار چائے منگوائی چائے آئی تو ممی نے مجھے اور پاپا کو چائے دی میں نے جیسے ہی کپ منہ سے لگایا وہ وہ بوڑھی عورت اچھل کر کھڑی ہوئی اور تیزی سے ہماری سائیڈ پہ آئی اور جھپٹ کے اس نے میرے ہاتھ سے کپ چھین لیا اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بہت غصہ آیا ممی نے بھی غصے میں کہا کہ کپ چھیننے کی کیا ضرورت تھی انٹی مجھے کہہ دیتیں میں خود آپ کو دے دیتی۔۔۔۔۔  ممی نےمجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور اپنا کپ مجھے دے دیا۔
میں نے ممی کے کپ سے چائے پی اور پھر کپ ممی نے دھو کر اپنے لئے چائے نکال لی۔
ائے ائے۔۔۔۔۔۔ہئے اے بٹوا یہ لے کپ۔۔۔۔ ممی جانے لگیں تو وہ خود پھلانگ کےنیچے اتری اور ہماری طرف آنے لگی تو ممی نے ان سے کہا انٹی پان والی آپ ادھر ہی سے  کپ دے دیں۔۔۔۔۔۔ اس بوڑھی عورت نے کپ دے دیا۔۔۔۔اور اپنی سیٹ پہ پاؤں اونچے کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آئے گا منڈا پتر۔۔۔۔۔ پتر آئے گا ۔۔۔۔ آئے گا۔۔۔۔۔ منڈی پتری وی آئے گی۔۔۔۔ پتری آئے گی۔۔۔۔آئے گی۔۔۔۔ مینو لالو کھیت دا،  لالو کھیت دا، لالو کھیت۔۔۔۔۔ لالو کھیت دا۔۔۔۔۔ لالو کھیت دا پراٹھا وے پراٹھا کواب کھلاوئے گے کتا سوہنٹا ہے لالو کھیت دا کباب تے پراٹھا۔۔۔۔۔۔من نے لالو کھیت دا پراٹھا پان نال کھاواسی کتھا سوہنٹا لگدا سی آہ لالو کھیت دا ۔۔۔۔کواب  تے پراٹھا پان نالوں آہ جلدی پتر منوں لادے کواب تے پراٹھالالو کھیت دا پان تےمیرے کول ہئے گا۔۔۔۔۔ بس کواب پراٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باتیں پہلے تو کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھیں لیکن جب سمجھ میں آئیں تو سب کا ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا لالو کھیت کا کباب پراٹھا  انٹی پان والینے پان کے ساتھ کھایا تھا۔۔۔۔۔۔
اب جبکہ سفر کچھ بڑھا تو ایک دوسرے سے بات چیت ہوئی تو سب کی ٹینشن کچھ کم ہو گئی۔۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات سلام دعا ہوئی ہماری سیٹ پہ ہمارے ساتھ ایک انٹی کشوراورانکی ایک بیٹی خٓلدہ  تھی۔
ہمارے سامنے والی سیٹ پہ ایک انکل واحد اور آنٹی صائمہ کے ساتھ چاربچے تھے اور انٹی پان والی کے برابر میں ایک عورت شکیلہ اورانکے شوہر جاوید تھے جن کے ساتھ تین بچے بھی تھے۔۔۔انٹی پان والی نے انکےچھوٹے بچے کو سنبھالا ہوا تھا۔۔۔انٹی پان والی کے سامنے والی سیٹ پہ ایک بوڑھا آدمی محمد اسد اور انکی بیوی صفیہ تھیں دونوں سندھی لگ رہے تھے  اور ان کے ساتھ دو آدمی تھے جن میں سے ایک کا نام تووقار تھا اور دوسرے کا نام حسیب تھا وہ دونوں  بھی سندھی تھے۔ دونوں ہر وقت کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ جبکہ بوڑھے میاں بیوی بھی کوئی رسالہ پڑھ رہے  تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ صفیہ آنٹی شاپر سے قمیض نکال کر اس پہ کڑہائی کرتی اور پھربور   ہوکراسے واپس رکھ دیتی تھیں انکا شوہر چشمہ لگائے ہوئے تھا مگر پھر بھی کتابیں پڑھ رہے تھےجب گاڑی اسٹیشن پہ رکتی تھیں تو اسد انکل اسٹیشن پر اتر کر وہاں پہ خوب گھومتے اور آنٹی کے لئے کچھ نہ کچھ لے کر ضرور آتے۔ اسد انکل کے برابر میں جو دو آدمی تھے وہ اسلامی کتاب پڑھ رہے تھے۔ وہ دونوں کھانا ٹرین کی کینٹین سے منگوا کر کھاتے اورٹرین سے صرف جنکشن پہ اترتے تھے۔
ہمارے ڈبے میں کبھی چائے  والا آتا کبھی بوتلوں والا مگر وہ انٹی پان والی ویسے ہی الگ تھلک رہتی تھیں پان کھا کر پیک پلاسٹک کی  تھیلی میں جمع کر کے اپنے تھیلوں میں جمع کرتی رہیں۔اب سب انٹی پان والیکی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کوئی پوچھ رہا تھا کہ انٹی کباب پراٹھا کھا کر پان کھایا تھا یا پان کھاکرکباب پراٹھا کھایا تھا؟ اور ان کے جواب سے سب خوش  ہو رہے تھے۔رات میں کھانے کا وقت ہوا تو ویٹر آیا تو انٹی  نے اسے بلایاکھانا منگوانے کے لئے تو سب کہنے لگے انٹی پان والی ہمارے ساتھ کھالیں مگر انٹی پان والی نے کسی کی نہیں سنی اور ویٹر سے بولیں اہئے سنٹدا ہئے منو اہک پلیٹ سالن ، تے چار روٹیاں تے، دو انڈے تِن چائے تے، پنج مکھن لادے ہاں دو لسی دے گلاس لانا نہ بھولیں۔۔۔۔۔۔
ویٹر نے سب لکھ لیا تھا اور سر ہلا کر چلا گیا۔۔۔
جو صفیہ آنٹی دادی کے سامنے تھیں اس نے قمیض شاپرمیں رکھی اور انٹی پان والی کو دیکھنے لگی
اہے ہئے کیا دیکھ رہی ہئے نجر لگائے گی کیا؟ انٹی پان والی نے اس عورت سے کہا
میرا نام صفیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔ انٹی پان والی نے تڑ سے جواب دیا
اتنا کھانا کیوں منگوایا ہے؟
کھانا کھانے کے لئے
اہئے ہائے کم عقل لاہور تک کا ہے نا
مگر گرمی بہت ہے کھانا سڑ جائے گا
تو کی ہویا، منڈی بکری کھالے گی
بکری وہ کہاں ہے؟
لاہور وچ ہے
تو بکری کو سڑا کھانا دو گی
ائے میرے اللہ، میں تینوں کیسے دساں کہہ مکھن نہیں سڑدا، روٹی نہیں سڑدی۔۔۔۔۔ انٹی پان والی پان والی نے سر پہ ہاتھ مار کہا
مگر وہ دوانڈے؟
وہ میں ناشتہ وچ کھاواںگی نا، اننی صبح تے او ویٹر نہیں آندا اے نا
اچھا۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ صفیہ انٹی چپ ہوگئی
ویٹر کھا نا لایا تو انٹی پان والی نے جلدی سے انڈے مکھن اور ایک روٹی شاپرمیں رکھ کر اپنے تھیلےمیں ڈال لیا۔
اماں اس تھیلے میں تو آپ نے پان کی تھوک رکھی ہے اسی میں روٹتی انڈے مکھن تو نہ ڈالو اگر شاپر میں کر کے رکھ لیں‘‘ اسد انکل نے کتاب کو نیچے کیا اور چشمہ آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
تینو کی ہے ، کھانا تے میرا ،کھاناوی مینو ہے،پر تکلیف تینو ہو رہی ہے، گل کیڈی ہے، تینو کھانا ہے تے دس دے، انٹی پان والی نے روٹی اس تھیلے میں ڈال کر اسکا منہ کس کر بند کرتے ہوئے کہا۔
اماں صحت کے اصولوں پہ عمل کریں گی صحت برقرار رہے گی،ورنہ اس طرح بد احتیاطی سے آپ بیمار ہو جائیں گی
اماں پیسے تو دویٹرنے انٹی پان والی سے کہا
 ائے کھا نٹے تے دے فیردے دوں گی۔
ارے اماں جلدی دومجھے آگے بھی جاناہے۔۔۔۔۔جلدی سے دو ۔۔۔۔۔ جلدی نکالو۔۔۔۔ویٹر نے چٹکی بجائی
 ائے ہئے رک جا میں کونسا نس رہی آن دے دیوا گی نا روٹی تے کھان دے انٹی پان والی نے غصہ سے کہا
آپ مجھ سے لے لیں ممی نے ویٹر کو خاموشی سے پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
پتہ نہیں کہاں کہاں سے آجاتی ہیں پینڈو عورتیں ۔۔۔۔ویٹر بڑبڑاتا ہواچلا گیا۔۔۔۔۔
اے پتر فکر نہ کر میں کھانا کھاکر تیرے پیسے دے دیواں گی۔۔۔۔۔ انٹی پان والینے سالن میں روٹی توڑ توڑ کر ڈال دی تھی اب وہ پانچوں انگلیوں سے کھارہی تھیں۔مگر اب کسی کو گھن نہیں آرہی تھی کیوںکہ سب کے سامنے انٹی پان والینے ہاتھ پہلے دھو لئے تھے۔
کھانا کھاکر انٹی پان والینے برتن اٹھا کر برتھ پہ رکھ دیئے تھے مگر پہلے انکو اپنے ہاتھوں کی طرح دھو لیا تھا۔۔۔۔
رات کو ممی کی گود میں سر رکھ کر میں تو سو نےلیٹ گیا تھا اور پاپا اپنی آفس کی فائلوں کو گود میں رکھے ان میں ہی الجھے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے والی سیٹ پہ جو انکل انٹی پان والی تھیں انہوں نے دونوں سیٹوں کے درمیاں چادر بچھا کر دو بچوں کو لٹا دیا تھا دو کو انہوں نے برتھ پہ سلایا تھا۔ خود دونوں انکل انٹی کسی بات پہ لڑ رہے تھے۔ جب سے بیٹھے تھے لڑتے ہی رہے تھے۔بچے انکے بچے خاموش اور ڈرے ہوئے سہمے ہوئے لگتے تھے۔میں نے ایک دو بار انکے بیٹے ظاہر سے بات کرنی چاہی مگر وہ ہوں ہاں کر کےچپ ہوگیا۔تو میں نے بھی پھر دوبارہ بات نہیں کی پھر مجھے نیند آگئی اورمیں سو گیا۔سوتے سوتے   کھٹ پھٹ سے میری آنکھ کھل گئی بمیں نے دیکھا کہہ ممی بھی سیٹ سے سر ٹکائے سو رہی ہیں اور پاپا بھی۔۔۔ سامنے والے انکل انٹی  بھی سو رہی تھیں۔سامنے سیٹ کے پیچھلی سیٹوں والے بھی سو رہے تھے پھر یہ آواز کیسی تھی؟ میری تجسس والی حس پھر بیدار ہوگئی میں نے لیٹے لیٹے کچھ جاننے کی کوشش کی۔۔۔۔ بہت غور سے دیکھنے پر سمجھ میں آیا کہ وہ انٹی پان والی تھی۔پان والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ان کی حرکتوں پہ غور کیا وہ ڈبہ میں موجود ہر شخص کے پاس جاتیں اورجھکتیھں اور آگے بڑھ جاتیں میں نے سوچاکہ ممی کو بتاؤں مگر اس سے پہلے ہی میری آنکھ لگ گئی اور میں پھر سو گیا۔صبح صبح ممی نے اٹھایا کہ چلو نماز پڑھو نماز پڑھ کر ممی نے مجھے چائے دی اور ناشتہ میں انڈے اور ڈبل روٹی میں نے ناشتہ کیا اور پھر بیگ سے اسٹوری بک نکال لی اور پڑھنے لگا۔۔ اچانک مجھے  رات کاخیال آیا تو میں نے ممی کو چپکے سے کان میں بتا دیا۔ ممی نے خوف زدہ ہو کر جلدی سے اپنا پرس چیک کیاپاپا کا والٹ چیک کیااور برتھ پہ رکھا سوٹ کیس کھول کے چیک کیا۔
پھر مجھ سے کہنے لگیں بیٹا کسی کو بتانا نہیں ویسے کوئی نقصان نہیں ہوا ہے شاید انکو سوتے میں چلنے کی عادت ہوگی یا پھر وہ کچھ ڈھونڈھ رہی ہوں گی ورنہ اب تک تو سب شور مچا دیتے۔ ممی نے مجھے سمجھایا مگر بیٹا نظر رکھنا تو پڑے گی ان پہ مگر کہنا نہیں کسی سے۔
ٹھیک ہے ممی میں کسی کو نہیں بتاؤںگا مگر ان پہ نظر رکھوںگا۔
ہاں۔۔۔ ہان ٹھیک ہے۔۔۔۔ممی نے مجھے دوبارہ میری کتاب پکڑا دی اور میں اسٹوری پڑھنے میں پھر سے مصروف ہوگیا۔
گاڑی اسٹیشن پہ رکی تو میں نے پاپا سے پوچھا کتنا راستہ رہ گیا ہے؟ بیٹا آج شام میں ہم پہنچ جائیں گے۔
واؤ کتنا مزا آئے گا میں ے دل ہی دل میں سوچا۔ اور پھر کتاب پڑھنے لگا۔۔۔۔اسٹیشن پہ پندرہ منٹ گاڑی رکی رہی اسٹیشن سے کوئی نہ کوئی کچھ بیچنے کے لئے آتا رہا کبھی ٹافیوں والا،کبھی ملتانہ مٹھائی ، کبھی شکارپوری اچاروالا، کبھی چائے والااور ایک کھلونےوالا بھی آیا جس سے میں نے  بھی کھلونے خریدے اسٹیشن پہ بہت رش تھا میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں نیچے جاکے گھوموں مگر پاپا کی اجازت نہیں تھی۔پاپا نے اور ہماری سیٹ کے برابر والے انکل اور دوسری طرف والے بھی پاپا کے ساتھ جاکے پانی کا کولر بھر لائے تھے اور اس میں برف بھی ڈلوائی تھی۔نیچے سے پاپانے نمکو کے پیکٹ بھی لائے تھے اور اب ممی وہ پیکٹ ٹرین میں سب خواتین کو بانٹ رہی تھیں اور پاپا مردوں کو۔  آہستہ آہستہ ٹرین روانہ ہوئی اور جتنے لوگ باہر تھے سب جلدی جلدی ٹرین میں چڑھ گئے ۔ گاڑی کے چلتے ہی ہم سب نے اپنی اپنی سیٹ سنبھال لی تھی۔
میں نے اپنی  کتابیں ساتھ بیٹھے بچوں سے بھی شئیر کی تھیں۔۔سب کو اچھی لگیں تھیں  ۔ سارے بچے میرے ساتھ فری ہو گئے تھے اب مجھے بہت مزا آرہا تھا۔ ورنہ اب تک میں اکیلا بور ہو رہا تھا۔اب ہم سب بچے ایک دوسرے کا نام بھی جان گئے تھے اور یہ معلوم ہوگیا تھا کون کہاں اور کیوں جارہا تھا۔میں نےسارے بچوں کو ٹافیاں بھی دیں تھیں جو پاپا نے مجھے لاکے دیں تھیں۔ کھیل ہی کھیل میں، میں نے سارے بچوں کو وضو بھی سکھا دیا تھا۔
 بیٹا چائے پی لو،۔ممی نے مجھے آواز دی۔
میں اٹھنے ہی والا تھا کہ ایک دم سے گولی چلنے کی آواز آئی اور دو تین لڑکے گنیں لئے ہمارے ڈبے میں گھس آئے۔۔
ہینڈز اپ۔۔۔۔۔کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے،ورنہ گولی مار دیں گے، ایک لڑکا ڈبہ کے دروازے پہ ایک دوسرے دروازے پہ اور ایک ہماری طرف بڑھامیں زور زور سے رونے لگا، اے چپ ہوجا، اس نے گن کا دستہ میرے   پہ مارا،تو میں اور زور سے رونے لگا ممی نے مجھے اپنی گود میں بٹھالیااور میرا سر اپنے سینے سے لگالیا چپ ہوجائو بیٹا یہ ورنہ پھر ماریں گے اور اللہ سے ڈرنا چاہیئے ہے نا ، ناکہ ان غنڈوں اور انکی گنوں سے تم ابھی سے ڈر گئے امامِ زمانہؑ کے سپاہی کیسے بنوں گے؟
میں نے سر ہلایا اور کہا اب ٹھیک ہے ممی اب میں نہیں ڈروں گا
سامان دو سامان کہاں ہے تم سب کا ، ان۔در جو لڑکا آیا تھا اس نے برتھوں سے سامان اتار کر ایک جگہ جمع کرنا شروع کردیا سب کا سامان کو کھل کھول کر پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہے تھے۔ سب کے سامان سے ایک ایک کپڑا ایک ایک جیب کھول کھول کر دیکھی اور پھر بیگ الٹ پلٹ کر ہر طرح سے چیک کیا۔۔۔۔۔
سردار یہاں تو کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔لڑکے نے سامان کو لات مار کر کہا
دروازے پہ کھڑے ہوئے لڑکے نے کہا پانی کے کولر دیکھے؟
ہاں سردار کولر بھی دیکھ لئے سب میں پانی ہے۔۔۔
ان کی جیبوں میں دیکھ!۔
پھر اس  نے گن اپنی جیب میں رکھی اور ایک ایک کو کھڑا کیا اور اسکی جامہ تلاشی لی، سردار ان کے پاس کچھ نہیں ہے، اچھا رک جا عورتوں کو بھی دیکھنا پڑےگا، اس نے فون پہ کسی سے بات کی تھوڑی دیر بعد ایک عورت آئی جس نے خوب   میک اپ ہوا  تھا۔ لال سرخ کپڑے پہنے ہوئی تھی۔اس نے بھی ہاتھ میں گن تھامی ہوئی تھی اس نے عورتوں کی تلاشی شروع کی ممی کی بھی تلاشی لی ممی کے پاس سے کچھ نہیں تھا۔پھر دوسری عورتوں کی تلاشی لی جب جانے لگی تو انٹی پان والی شاید سو رہی تھیں جبھی ان کی ابھی تک آواز نہیں آئی تھی میں تو سوچا کہ وہ سو رہی ہیں اچانک وہ برتھ سے نیچے آئیں انکے ہاتھ میں ان کے دونوں تھیلے تھے ائے ہئے میری بھی للے لے تلاشی میں بھی ہوں ادھر یہ لئے اس دے وچ چیک کرلے ائے لئے    انٹی نے اپنا ایک تھیلا کھولا ا ے لئے  ۔۔۔ ۔یہ لئے اینو ویکھ اے لے اینو ویکھ۔۔۔۔۔ انٹی پان والی نے تھیلے سے سامان نکال کر زمیں پہ گرایا تو وہ عورت چیخ کر پیچھے ہٹ گئی اس میں سے پان کی پیکیں، انڈوں کے چھلکے، سوکھی روٹیاں، سالن کی تھیلی، پان کے ریپر ، پانی کی خالی بوتلیں، کولڈ ڈرنک کی بوتلیں، ایک نمکو کی تھیلی جو ممی نے انکو دی تھی، اس کے علاوہ سبزیوں کے چھلکے اور  کیلے کے سوکھے چھلکے، پلاسٹک کے ٹوٹے گلاس ایک دو لکڑیاں بھی تھیں، یہ والا بھی کھولاں تہاوڈے لئے ، انٹی پان والی نے دوسرے تھیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا بلکہ اینو تو کھول لے،اس دے وچ منڈی بکری دی کھال ہئے جو منڈے پتر نے مینو دی سی کہ اینو میں گاؤں دے چودھری نو دے دتاں انہاں نو اس دی بڑی لوڑ ہئے۔۔۔۔۔اس نے کیا سی کہ اس نو برف دے وچ رکھ کےلے جاواں پر میں نے ایسی ہی رکھ لتا ۔۔۔۔۔ سنگواواں خشبو؟ انٹی پان والی نے فر فر بولتے ہوئے اس عورت کے چہرے کے تاثرات بھی نہیں دیکھے،
ہٹ ہٹ پیچھے ہٹ بڑھیا ورنہ مجھے الٹی ہو جائے گی اس نے انٹی پان والی کے تھیلے کو لات ماری جو پہلے انٹی پان والی نے الٹا تھا، اس تھیلے پہ جونہی لات ماری وہ نیچے پڑی چیزوں پہ جاگرا اور پھر پورے ڈبے میں لال لال رنگ بکھر گیا ۔
چلو یہاں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔وہ عورت جلدی سے باہر چلی گئی ۔۔۔ اس کے پیچھے تینوں لڑکے بھی چلے گئے۔۔۔۔۔ وہ تو چلے گئے مگر ہم سب کے سب یون بیٹھے تھے گویا وہ ابھی یہیں ہوں ہم سب خاموشی شے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔۔۔
اب چلو تسی اپنا اپنا سامان تے چکو نا۔۔۔۔ انٹی پان والی نے چلا کر کہا تو جیسے سب کو ہوش آگیا۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی کوئی سامان اٹھانے نہیں بڑھا بلکہ اب سب سب رو رہے تھے سب کی آنکھوں میں آسوؤں کی لڑیاں تھیں۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں سب رو رہے تھے۔۔۔۔۔
ممی بھی پاپا بھی اور باقی لوگ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران رہ گیا۔۔۔
چلو سامان تے چکو۔۔۔۔۔ انٹی پان والینے پھر کہا اور پھر کافی دیر کے بعد ایک ے بعد ایک اٹھا اور اپنا سامان سمیٹا اور پھر انٹی پان والی نے اپنے کولر سےڈبہ کو دھو دیا۔
سب بہت اپ سیٹ تھے۔۔۔۔۔معلوم نہیں کیوں سب ہی رو رہے تھے۔۔۔۔۔ہم سب اپنے والدین کو روتا دیکھ کر پریشان تھے۔۔۔ اب سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا۔۔۔۔پھرپاپا نے بتایا کہ سامان ایک جگہ رکھ لو لاہور آنے والا ہے۔
۔۔انٹی پان والی نے  بوگی کے سب لوگوں کو ایک جگہ بلا کر ایک جگہ ہی بٹھالیا اور کہنے لگیں ویکھ، پترمیں جب کل رات پچھلے سٹیشن پہ اتری تو میں نے ایک آدمی کو کہتے سنا کہ اگلے جنکشن پہ آنا یہاں نہ آؤ کیونکہ یہاں خطرہ ہے جنکشن پہ ہی کار روکنا واردات کر کے ہم نکل جائیں گے۔۔۔۔۔ چلتی ٹرین سے کام کر کے کودیں گے جب تک ٹرین رکے گی ہم جا چکے ہوں گے،
توآپ نے ہمیں کیوں نہ بتایا آپ کو تو میں نے بتایا تھا کہ میری بیٹی کی شادی ہے اس کے لئے میں نے پائی پائی جوڑی تھی ہماری سیٹ پہ بیٹھی ہوئی عورت نے کہا ،
مجھے بتا دیتیں آپ کو پتہ ہے کہ میں نے اپنے پاپا کے آپریشن کے لئے بنک سے قرضہ لیا تھا اب وہ کیسے بچیں گے، آج ہر حال میں انکا آپریشن ہونا تھا، ہائے میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔ انٹی پان والی کی سائیڈ پہ بیٹھے دونوں لڑکے بری ظرح رو رہے تھے۔
 اور میں کیا کروں میری ریٹائرمنٹ ہوئی ہے میں اپنے بچوں کے ہمراہ گھر جارہا تھا اور میری امی نے میری بہن کے لئے اپنے زیور بجھوائے تھے اب اسے طلاق ہو جائے گی، اس کے شوہر نے مطالبہ کیا تھا زیور کا کہ اگر نہ دیئے تو پھر اپنی بہن کو مرا ہوا لے جانا ، ہائے میرے خدا میں کیا کروں، بوڑھے انکل اور رو رہے تھے۔۔۔۔
اور میرے بھائی کی شادی ہے کل میرے پاس اسکے زیور تھے، اب میری امی مجھ پہ شک کریں گی، میری بیوی پہ بھی کیوں کہ یہ اس شادی کے لئے راضی نہیں تھی۔۔۔۔
ارے میری وی سن لو۔۔۔۔ انٹی پان والی نے سب کی سن کر کہا
جی کہیں ۔۔۔۔۔پاپا نے رومال سے چہرہ پونچھ کر کہا
میں اگر بتاتی تو تم لوکاں کتھے چھپاتےاس لئے میں نے تھاڈی چیزاں آپے ہی چھپا دیتی سی
کیا؟ سب چیخ اٹھے تھے
جی ہاں!انٹی پان والی نے سرہلایا
مگر کہاں چھپایا انہوں نے تو پورا ڈبہ چھان  مارا ہے۔۔۔۔۔۔
انہاں نے سب کچھ تے چیک نہیں کیا۔۔۔۔انٹی پان والی نے نفی سر ہلایا
پورا ڈ بہ تو چیک کیاہےپانی کے کولر،جوتے،جیبیں، برتھ، پرس ہر چیز۔۔۔۔۔۔۔
ہاں پر مری سمج اننا سے وڈی  ہے۔ میں نے او کیتا کہ اس دا تے باپ بھی نہیں لب سگدا ہے۔۔۔
پر ہے کہاں؟
ائے لو انٹی پان والی نے اپنا وہی پرانا تھیلا لہرایا ۔۔۔۔۔ ائے لئے اِنو پھڈ
انٹی پان والی نے یہ کہہ کر اپنا تھیلا نیچے الٹ دیا اس میں سے  سب کے پرس نیچے جاگرے۔۔۔۔  سب ایک دم سے اپنے اپنے چیزیں اٹھانے جھک گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہر کوئی اپنی چیز اٹھا کر دیکھتا اور سجدہ میں گرجاتا۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد انٹی پان والی نے اپنا پاندان اٹھا لیا پان لگایا اور پھرجب انہوں نے پلاسٹک کی تھیلی میں پیک ڈالی توسب ان کے پاس آگئے لاؤ ماں جی! میں پھنک دوں۔۔۔۔۔۔کوئی انکو چائے پلا رہا تھا تو کوئی ان کے لئے ٹھنڈی ٹھنڈی بوتلیں لا رہا تھا۔۔۔۔ ساری عورتیں ان کے پاس باری باری جا کے ان کے پاؤں دبا رہی تھیں۔ اور وہ سب کی راجہ اندر بنی ہوئی تھیں ۔۔۔ جب کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان سے پوچھوں کہ انہوں نے سب کی قیمتی چیزیں کیسے نکالیں؟شاید یہ کام انہوں نے جب کیا ہوگا جب میں نے انکو رات میں پورے ڈبہ میں ادھر ادھر گھومتے دیکھا تھا۔
ایک انکل نے  بالآخر پوچھ لیا کہ انکو کیسے پتہ چلا کہ کس کے پاس کیا قیمتی چیزہے؟
وہ مینو اِس طرح پتہ پڑا کہ تسلی ان چیزاں نو اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔۔۔ بار بار انہاں نو چھودے سی اِن چیزا دی حفاظت کر رہے سی۔۔۔۔ پر جب تسلی سو جانے ہو تہ ہر چیز نال غافل ہو جاندے ہو اس لئے میں نے رات دے وقت تہاڈی چیزاں نو اٹھا لیتا سی۔۔۔۔۔
لاہور کا اسٹیشن آگیا تھا گاڑی رک گئی اور اسٹیشن سے لوگ پھر گاڑی میں چڑھ گئے اور گاڑی میں بیٹھے لوگ اترنے لگے۔۔۔۔۔
سب لوگ اپنے اپنے کام  میں لگ گئے اور میں ان انٹی پان والی پہ نظر رکھے ہوئے تھا کہ اچانک وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئیں۔۔۔۔ اور میں پاپا ممی کے ساتھ نیچےاتر گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچو دولہا بنے اسٹیج پہ بھیٹھے ہوئے تھے، ان کے ساتھ دادی بیٹھی تھیں ۔وہ مسکرا رہی تھیں ۔۔۔ان کے دوسری طرف دلہن بھی بیٹھی ہوئی تھی جس کے گلے میں خوبصورت سونے کے ہار جگمگ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ دادی کی حسین مسکراہٹ مجھے اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ ہم سب خوب انجوائے کر رہے تھے۔
میں کسی کام سے ہال کے دروازے پہ آیا تو ایک آواز سن کر ٹھٹک کر رک گیا
مینو کی پتہ تسی خود ہی ویکھ لو، آوازانٹی پان والی کی تھی میں نے جلدی سے وہاں دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی تو میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔اور قریب تھا کہ میں بیہوش ہو کر گر جاتا کو کہ تایا جانی نے جو قریب ہی کھڑے تھے مجھے انہوں نے اپنے سینے سے لگا لیا۔ انٹی پان والی نے مجھے اس طرح حیرت ذدہ دیکھ کر آنکھ ماری اوردوبارہ اندر اسٹیج پہ جاکے بیٹھ گئیں۔ جب میں نے انٹی پان والی کے بارے میں پاپا کوبتایا تو وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔۔اور کہنے لگے کہ اچھا تو ان سے ایک بار پھر ملا قات ہو گی واپسی پر!
جب ممی کو بتایا تو بھی حیران ہو کر بولیں کہ بھلا بتاؤ مجھے شک تک نہیں ہوا۔۔
اب واپس جاتے وقت میں تو دوبارہ ملیں گی نا پھر دیکھنا اب میں انکو تنگ کروں گی۔۔۔۔ممی نے آہستہ سے کہا۔
مگر میں واپسی پہ دوسرے ڈبہ میں بیٹھوں گی۔۔۔۔۔ وہ پتہ نہیں کب ہمارے پیچھے آکر کھڑی ہو گئیں تھیں۔۔۔۔
وہ کیوں انٹی پان والی؟ میں نے انکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
اور ممی کے ساتھ ساتھ پاپا اور میں بھی ہنس پڑا۔کیوں کہ ان پہ انٹی پان والی کا لفظ سوٹ نہیں کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ انٹی پان والی کون تھیں؟کیا آپ نے پہچانا؟
وہ ہمارے ڈبے میں ہی کیوں تھیں؟
انکا پلان کیا تھا؟
انہوں نے کس کس کو بے وقوف بنایا؟
جس کو بھی سہی جواب آتا ہو وہ اپنا جواب اپنی تصویر اور کلاس کے نام کے ساتھ بھیجے۔

جو بھی اس سوال کا صحیح جواب دے گا اسکا نام اور تصویراگلے شمارے میں چھپے گی۔

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...