Wednesday, 10 December 2014

جناب مرجع دینی ِبزرگوار،محترم سید السیستانی کے ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم, Home


 
سوال و جواب » ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم


۱ سوال: ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جناب مرجع دینی ِبزرگوار،محترم سید السیستانی(مدظلہ)
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ ۔۔اللہ آپ کو مصیبت امام حسین ؑ میں اجر عظیم عطاء فرمائے۔
اب جبکہ ھم لوگ چہلم امام مظلوم سید شہداء علیہ سلام کی مناسبت سے کربلاء مقدسہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں تو اس سلسلے میں آپ کے پدرانہ ارشادات کے محتاج ہیں جو خاص طور پر اس مناسبت کے کیئے ہو تاکہ اس زیارت کا فائدہ برتر اور اجر عظیم تر ہوجائے اور جن امور سے ھم غافل ہیں یا جن چیزوں کے اجر و ثواب کو ھم نہ جانتے ہوں ان کے بارے میں ایک تنبیہ ہو جائے ساتھ ھی ھم امید کرتے ہیں کے یہ ارشادات معاشرے کے ہر طبقےکے افراد کے لیئے ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپکے وجود مبارک کی نعمت تا دیرباقی رکہے۔
از طرف مجموعہ مومنین۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین۔
بعد از آں جن مومنین کو اللہ تعالی نے اس زیارت ِشریفہ کی توفیق دی ہےانہیں اس بات کی طرف ملتفت ہونا چاہیئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے انبیاء و اوصیاء قرار دیئے تاکہ وہ لوگوں کے لیئے اسوہ و نمونہ عمل اور ان پر اللہ کی حجت قرار پائیں اور ایسا اسلیئے کہ لوگ انکے افعال کی اقتداء کرتے ہوئے انکی تعلیمات سے ھدایت حاصل کریں ۔اور اسہی نے ان کے ذکر کو باقی رکہنے اور ان کے مقام و منزلت کو بلند رکہنے کے لیئے ان کی زیارت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی ۔تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ اور اسکی تعلیمات و احکام کا تذکرہ باقی ر ہے۔ اور بیشک یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں کہ جو پروردگار کی اطاعت،اسکی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین ِقویم کی خاطر قربانی دینے میں مثل اعلیٰ ہیں۔
پس اسہی بنا پر اس زیارت کے تقاضوں میں سے ہے کہ امام حسین ؑ کی فی سبیل اللہ قربانی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی تعلیمات جیسا کہ نماز۔حجاب۔اصلاح ۔عفوو درگزر حلم۔ادب۔حرمات الطریق(عام راستوں پر حق عام کا خیال رکہنا) اور دیگر تمام اعلیٰ معانی کی مراعات ہونی چاہیئے ۔تاکہ یہ زیارت بفضل خداوند تعالیٰ ان اچھے آداب و اقدار کی تربیت دینے کیلیئے ایک ایسا قدم ہو سکے جسکے آثار دائمی و تا دیر برقرار رہیں حتی کہ مستقبل میں آنے والی زیارتوں کے لیئے بھی یادگار رہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ ان زیارتوں میں حاضر ہونا خود امام (ع) کی مجالس تعلیم و تربیت میں حاضر ہونے جیسا ہے۔
ہمیں اگرچہ دورِ حضور آئمۃ اھل بیت ؑ تو حاصل نہیں ہواکہ ھم خود ان سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے اور انہی کے دست مبارک سے پرورش پاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیئے انکی تعلیمات اور ان کے موقف کو محفوظ فرمایا اور ہمیں انکے مشاھد و مزارات کی زیارت کا شوق عطاء کیا تاکہ وہ ہمارے لیئے روشن مثالیں قرار پائیں۔اور ساتھ ہی اس زیارت کے ذریعے ہمارے اس دعوے کی سچائی کا امتحان بھی مقصود ہے کہ جو ھم ان حضرات کی رفقت کی تمنیٰ کرتے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ھم انکی تعلیمات و موعظۃ کو کس قدر قبول کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے آئمۃ ؑ کے ساتھ رہنے والوں کا امتحان لیا تھا ۔
اب ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیئے کہ کہیں ہمارا شوق و تمنی حقیقت میں غیر صادق تو نہیں ۔ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر ھم ویسے ہی بن جائیں کہ جیسا اہل بیت ؑ چاہتے ہیں توامید ہے کہ ھم بھی ان کے ساتھ زندگی کزارنے والے ساتھیوں میں ہی محشور ہوں گے۔
جناب امیر المومنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ؑ نے جنگ جمل کہ موقع پر فرمایا(یقیناًہمارے ساتھ اسوقت وہ لوگ بھی حاضر ہیں کہ جو ابھی تک مردوں کے اصلاب اور عورتوں کےارحام میں موجود ہیں)۔ پس ھم میں سے جو بھی تمنائے اھل بیت ؑ میں سچا ہوگا اسکے لیئے دشوار نہ ہوگا کہ تعلیمات اھل بیت ؑ پر عمل کرے اور انہی کی اقتداء کرے تاکہ وہ ان حضرات کی پاکیزگی سے تذکیہ حاصل کرے اور انہی کے آداب سے آراستہ ہو جائے۔
اللہ اللہ نماز کا خیال کیا جائے!!جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ یہ عمود (ستون) دین اور معراج مومنین ہے اگر یہ قبول ہوگئی تو باقی سب بھی قبول ہوگا اور اگر یہ رد ہوگئی تو پھر باقی سب اعمال رد ہوجائیں گےمناسب یہی ہے کہ نماز کی پابندی اول وقت میں ہی کی جائے،چوں کہ اللہ کامحبوب ترین بندہ وہ ہے جو اسکی نداء پر سب سے پہلے لبیک کہے۔اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مومن اول وقت نماز میں کسی اور اطاعت گزاری کے کام میں مشغول ہو۔یہ نماز خود سب سے افضل اطاعت ہے۔اور اہل بیت ؑ سے ہی وارد ہوا ہے کے (ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی جانتےہوں)۔اورخود امام حسین ؑ بھی یوم عاشوراء بھی نماز کا خاص خیال کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اس شخص سے فرمایا جس نے اول وقت میں نماز کا تذکرہ کیاتھا( تم نے نماز کو یاد کیا ،اللہ تمہیں مصلینِ ذاکرین میں سے قرار دے) پھر امام ؑ نے تیروں کی بارش میں میدان قتال میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ اخلاص کا سوچیں! کیوں کہ انسان کے عمل کی قدر و قیمت اور اسکی برکت اس ہی مقدار میں ہے کہ جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ کے لیئے اسکا اخلاص ہوگا ۔بیشک اللہ تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتا اس ہی کے لیئے ہو اور اس کے غیر کی طلبگاری سے خالی ہو۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ جملہ مسلمانوں کی مدینہ ھجرت کے وقت وارد ہوا کہ یقیناً جو کوئی اللہ ورسول کی طرف مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت تو اللہ کے لیئے ہوئی،اور جو دنیا کی جانب مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت دنیا ہی کے لیئے ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً ثوابِ عمل کو درجہ اخلاص کے حساب سے بڑھا دیتا ہے حتی کہ سات سو گنا اضافہ بھی کردیتا ہے،اور اللہ تو جس کے لیئے چاہے اضافہ کرتا ہے۔
بس زائرین کو چاہیئے کہ راہ زیارت میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور اپنے ہر قدم، ہر عمل میں اخلاص پیدا کریں اور یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوایسی کوئی نعمت مرحمت نہیں فرمائی کہ جیسی نعمت اعتقاد ، قول اور فعل میں اخلاص کی نعمت ہے۔بغیر اخلاص انجام دیا جانے والا عمل اس زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص عمل مبارک و دائمی ہوگا ،جو اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی باقی رہے گا۔
اللہ اللہ پردہ و حجاب کا خیال رہے،بیشک یہ وہ مھم ترین چیز ہے کہ جسکا اھل البیت علیہم السلام نے خیال رکہا حتی کہ کربلاء میں ان شدید مصائب میں بھی اھتمام کیاکہ وہ اس معاملے میں مثل اعلیٰ ہیں۔اور انہوں نے دشمنوں کے حملوں سے بھی اتنی اذیت نہیں اٹھائی کہ جتنی تکلیف لوگوں کے سامنے بے پردگی و ہتک حرمت سے انہیں ہوئی۔لہذا تمام زوّار خاص طور پر مومنات پر لازم ہے کہ وہ اپنے لباس و منظر میں اور اپنے تمام افعال میں عفت کے تقاضوں کو پورا کریں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں کہ جو اس تقاضہ عفت کے منافی ہو جیسا کہ تنگ لباس زیب تن کرنا، لوگوں میں ایسے مخلوط ہونا کے جو باعث مذمت ہو،یا ایسی زینت کرنا کے جس سے منع کیا گیا ہے ۔بلکہ اس عظیم زیارت ،ان شعائر مقدسہ کو ہر قسم کی نامناسب تہمتوں سے دور رکہنے کے لیئے، منافیء عفت چیزوں سے ہر ممکن اورآخری درجہ تک اجتناب کرنا چاہیئے۔
ھم اللہ تعالیٰ سے ملتمس ہیں کے نبی المصطفیٰ ﷺاور انکے اھل بیت کے مقام کو دنیا وآخرت میں مزید بلند فرما ئےان قربانیوں کی بناء پر جو انہوں نے اسکی راہ میں دیں اور وہ
جدوجہد جو اسکی خلق کی ھدایت کے لیئے کی۔اور ان پر وہ عظیم صلوات نازل فرما کہ جیسی انسےپہلےمصطفین،بالخصوص ابراھیم وآل ابراھیم (علیھم السلام)پر نازل کی۔اور اس ذات تعالیٰ سے یہ بھی دعاء ہے کہ زوارِ ابی عبداللہ الحسین (ع) کی زیارت میں برکت عطاء فرمائے اور جو قبولیت وہ اپنے عباد صالحین کے عمال پر دیتا ہے اس زیارت کو اس سے بھی افضل شرف قبولیت عطاء فرمائے۔تاکہ زائرین اس زیارت اور اسکے بعد کی زندگی میں اپنے سیر وسلوک کے ساتھ دوسروں کے لیئے ایک مثال بن جائیں۔اور انکواھل بیت(علیھم السلام) سے انکی ولایت و محبت ،اپنی زندگی میں انہی کی اقتداء کرنے، اور پیغام اھل بیت کی تبلیغ کرنے پر جزائے خیر عنایت فرمائے ۔امید ہے کہ انہیں روز قیامت اھل بیت (ع) کے ساتھ بلایا جائے گا جیسا کہ ہر شخص کو اسکے امام کے ساتھ بلایا جانا ہے۔اور ان کے شھداء کو شھداء امام حسین (ع) اور انکے اصحاب کے ساتھ محشور فرمائے چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں کو قربان کیا اور ولایت کی خاطر ظلم و ستم سہے۔بیشک کہ وہ بہت سنے والا اور جواب دینے والا ہے۔

Tuesday, 9 December 2014

امام رضا (ع) کي دس احاديث,Home

امام رضا (ع) کي دس احاديث

امام رضا (ع) کی دس احادیث
1- قالَ الرضا عليه السلام: الصَّلوةُ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَاللّهِ عَزَّوَ جَلَّ التَّسْبيحَ وَالتَّهْليلَ وَالتَّكْبيرَ-(1)
امام رضا (ع) نے فرمايا: محمد اور اہل بيت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر صلوات اور تحيّت کا ثواب سبحان اللّه ، لا إ له إلاّاللّه ، اللّه اكبر کے ثواب کے برابر ہے-
2- قالَ الرضا عليه السلام: لَوْخَلَتِ الاْ رْض طَرْفَةَعَيْنٍ مِنْ حُجَّةٍ لَساخَتْ بِاهْلِها (2)
اگر زمين لمحہ بھر حجت سے خالي ہوجائے تو يہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گي-
3- قالَ الرضا عليه السلام : عَلَيْكُمْ بِسِلاحِالاْ نْبياءِ، فَقيلَ لَهُ: وَ ما سِلاحُ الاْ نْبِياءِ؟ يَا ابْنَ رَسُولِ اللّه ! فَقالَ عليه السلام : الدُّعاءُ- (3)
آپ کو انبياء عليہم السلام کا ہتھيار استعمال کرنا چاہئے، پوچھا گيا: انبياء عليہم السلام کا ہتھيار کيا ہے؟ امام عليہ السلام نے قرمايا: انبياء عليہم السلام کا ہتھيار خدا کي طرف توجہ دينا، دعا کرنا اور خدا سے مدد مانگنا ہے-
4- قالَ الرضا عليه السلام : صاحِبُ النِّعْمَةِ يَجِبُ عَلَيْهِ التَّوْسِعَةُ عَلى عَيالِهِ- (4)
نعمت و دولت کے مالک  کو اپني قوت کے مطابق اپنے اہل و عيال کے لئے خرچ کرنے چاہئے-
5- قالَ الرضا عليه السلام : المَرَضُ لِلْمُۆْمِنِ تَطْهيرٌ وَ رَحْمَةٌ وَلِلْكافِرِ تَعْذيبٌ وَلَعْنَةٌ، وَ إ نَّ الْمَرَضَ لايَزالُ بِالْمُۆْمِنِ حَتّى لايَكُونَ عَلَيْهِ ذَنْبٌ (5)
بيماري مۆمن کے لئے رحمت اور گناہوں کي مغفرت کا سبب اور کافر کے لئے عذاب اور لعنت ہے-
امام عليہ السلام نے مزيد فرمايا: بيماري ہميشہ مۆمن کے ہمراہ ہے تا کہ اس کا کوئي گناہ باقي نہ رہے اور موت کے بعد آسودہ خاطر ہو- (جاری ہے)

حوالہ جات:
1- امالى شيخ صدوق ص 68، بحارالا نوار: ج 91، ص 47، ضمن ح 2-
2- علل الشّرايع : ص 198، ح 21-
3- بصائرالدّرجات : جزء 6، ص 308، باب 8، ح 5-
4- وسائل الشّيعة : ج 21، ص 540، ح 27807-
5- بحارالا نوار: ج 78، ص 183، ح 35، ثواب الا عمال : ص 175-

ہفتہ وحدت کا نام کیسے رکھا گیا؟, Home





ہفتہ وحدت کا نام کیسے رکھا گیا؟
           
شفقنااردو(بین الاقوامی شیعہ خبررساں ادارہ) - امام خامنہ ای فرماتے ہیں :مجھے وہاں(سیتسان و بلوچستان) جلا وطن کیا گیا تھاحکومتی عناصر نہیں چاہتے تھے کہ ہم وہاں کچھ کر پائیں اس کے باوجود ہم نے کہا :آو کچھ ایسا کریں کہ اس شہر میں شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ نیوزنور کے مطابق 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے ہفتہ  عید میلاد النی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہفتے کا نام" ہفتہ وحدت "کیسے پڑ گیاجاننا دلچسپ ہوگا کہ یہ نام ایران میں  اسلامی  انقلاب کی کامیابی کے بعد کا نہیں  بلکہ یہ نام انقلاب سے پہلے ہی ایران کے سنی اکثریتی صوبہ سیستان و بلوچستان میں رکھا گیا تھا اس زمانے میں کہ جب قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ایران شھر جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے اس نام کےرکھے جانے کی روایت کو ہم  رہبر انقلاب کے الفاظ میں پڑھتے ہیں:.

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...