ہفتہ وحدت کا نام کیسے رکھا گیا؟
شفقنااردو(بین الاقوامی شیعہ خبررساں ادارہ) - امام خامنہ ای فرماتے ہیں :مجھے وہاں(سیتسان و بلوچستان) جلا وطن کیا گیا تھاحکومتی عناصر نہیں چاہتے تھے کہ ہم وہاں کچھ کر پائیں اس کے باوجود ہم نے کہا :آو کچھ ایسا کریں کہ اس شہر میں شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ نیوزنور کے مطابق 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے ہفتہ عید میلاد النی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہفتے کا نام" ہفتہ وحدت "کیسے پڑ گیاجاننا دلچسپ ہوگا کہ یہ نام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کا نہیں بلکہ یہ نام انقلاب سے پہلے ہی ایران کے سنی اکثریتی صوبہ سیستان و بلوچستان میں رکھا گیا تھا اس زمانے میں کہ جب قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ایران شھر جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے اس نام کےرکھے جانے کی روایت کو ہم رہبر انقلاب کے الفاظ میں پڑھتے ہیں:.
جلا وطنی کے زمانے میں سب سے پہلے ہفتہ وحدت کی تشکیل
مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا دشمنوں کے پاس ہمیشہ کام آنے والا ہتھیار شیعوں اور سنیوں کے درمیان مذہبی اختلاف وغیرہ تھا۔جھگڑا کھڑا کرتے ہیں ، اختلاف پیدا کرتے ہیں ، بھائیوں کو ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں اختلافات کو بڑا کرتے ہیں اجاگر کرتے ہیں اتحاد اور اشتراک کے موارد کو کمزور کرتے ہیں ان کا رنگ پھیکا کرتے ہیں۔بات کا بتنگڑ بناتے ہیں اس کو نمایاں کرتے ہیں اتنے سارے مشترکات جو شیعہ سنی کے درمیان ہیں ان کو چھوٹا اور کمزور کرتے ہیں یہ کام ہے جو ہمیشہ ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔
جمہوری اسلامی پہلے روز سے ہی اس سازش کے سامنے ایستادہ ہے ؛وجہ یہ ہے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کر رہے ہیں ،یہ ہمارا عقیدہ ہے اسلامی نظام کی تشکیل سے پہلے ہمارے بھائی ، تحریک کے بڑے افراد ،اس زمانے میں بڑے انقلابی مجاہد ،کہ ابھی جمہوری اسلامی اور حکومت اسلامی کا نام ونشان تک نہیں تھا،شیعہ سنی کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ میں خود بلوچستان میں جلا وطن تھا ۔ اس وقت سے لیکر آج تک بلوچستان ، ایرانشھر ، چا بھار ، سراوان ،اور زاہدان کے سنی علماء کے ساتھ ان لوگوں کے ساتھ جو بحمد اللہ زندہ ہیں ہم دوست ہیں قریب ہیں اور صمیمی ہیں۔
میں وہاں جلا وطن تھا حکومت نہیں چاہتی تھی ہم وہاں کوئی جدوجہد کریں اس کے با وجود ہم نے کہا : آو اس شھر میں شیعہ اتحاد کا مظاہرہ کریں، تب یہ ہفتہ وحدت جو اہل سنت کی روایت کی بنا پر ۱۲ ربیع الاول پیغمبر کی ولادت ہے اور شیعوں کی روایت کے مطابق ۱۷ ربیع الاول ہے کا درمیانی ہفتہ ہمارے ذہن میں آیا اور ایرانشھر میں ہم نے اس پر عمل کیا یعنی ۱۲ سے ۱۷ ربیع الاول تک ہم نے جشن منایا یہ ایک گہری فکر تھی جو آج اور کل کی فکر نہیں تھی
۲۵ ۔۷۔۱۳۹۰
اسلامی اتحاد کی فکر کوئی زود گذر فکر نہیں ہے
اسلامی اتحاد کی فکر کوئی تازہ یا زود گذر نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے سنی اپنی جگہ پر سنی ہیں اور شیعہ بھی اپنی جگہ پر شیعہ ہیں دونوں کے اپنے عقائد اور اعمال ہیں اور کوئی دوسرے کو مجبور نہیں کرتا کہ تم میری طرح وضو کرو یا دوسرے اعمال انجام دو حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک خدا ایک قبلے ایک پیغمبر ایک طرح کے مقاصد اور اقدار اور ایک اسلام کے معتقد ہیں ہم ان چیزوں کو کیوں بھول جائیں ؟!
میں انہیں دنوں میں کہ جب جلا وطن تھا ۔آقائےمولوی قمر الدین جو یہاں بیٹھے ہیں ۔میں نے ان کو پیغام دیا ،میں خود ان کی مسجد میں گیا اور کہا کے آئیے کہ ۱۷ ربیع الاول کے درمیان ۔کہ ہم شیعہ ۱۷ ربیع الاول کو پیغمبر کی ولادت کا دن مانتے ہیں اور جشن مناتے ہیں ۔اور ۱۲ ربیع الاول کو ۔کہ آپ سنی حضرات پیغمبر کی ولادت کا دن مانتے ہیں ۔جشن منائیں ہم بھی جشن منائیں آپ بھی جشن منائیے ۔
اتفاق سے پہلے اور دوسرے دن ہی ایران شہر میں سیلاب آگیا جس نے ہر چیز کی بساط الٹ دی ہم لوگوں کی امداد کے کام میں جٹ گئے اور کچھ بھی نہیں کر سکے ان چیزوں پر آپ حضرات دھیان رکھیں بہت خوب ، طبیعی ہے کہ ہر شخص اپنے عقائد کے احترام اور ان کی قدر و قیمت کا قائل ہے لیکن اگر زید اپنے عقیدے کا احترام کرتا ہے تو کیا اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ عمر و کے عقیدے کی اہانت کرتا ہے ؟!
یا اگر عمرو اپنے عقیدے کا احترام کرتا ہے تو کیا اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ زید کی توہین کرتا ہے ؟!
کیوں ؟! دشمن یہی چاہتا ہے اور یہ آگ عجیب ہے اگر بھڑک جائے
اس وقت آپ دیکھیں ہماری سر حد کے پڑوس میں ہی اختلاف اور تفرقہ کے ہاتھ شیعوں اور سنیوں کو بھڑکا رہے ہیں انہی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو کافر فاسق اور اور ایسا ویسا مانتے ہیں اور قتل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں ان چیزوں پر زور دیتا ہوں اور یہ بنیادی نکتہ ہے جی ہاں میں اپنے دوستوں اور عزیز علماء کا شکر گذار ہوں کہ جنہوں نے اس سلسلہ میں کو ششیں کی ہیں لیکن ان کو ششو ں کو مزید گہرا کریں اور دوستیوں میں گہرائی پیدا کریں ہر شخص اپنےمذہب پر ثابت قدم رہے علمی اور فکری بحثیں بھی اپنی جگہ پر محفوظ رہیں یہ بہت اچھا ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن اختلاف سے ہوشیار رہیں لوگوں پر نظر رکھیں اور دشمن پر نگاہ رکھیں ۲۔۱۲ ۔ ۱۳۸۱
علماء نے ندائے وحدت کا مثبت جواب دیا
انقلاب کے شروع میں سب سے پہلی جگہ کہ جہاں امام نے ایک جماعت بھیجی میرے خیال میں وہ بلو چستان تھی امام نے مجھے بلایا اور ایک حکم بھی لکھا کہ جس کو ریڈیو سے نشر کیا گیا میں ایک جماعت کے ساتھ چل پڑا اور بلوچستان پہونچا ۔مرحوم مولوی عبدالعزیز ساداتی ملا زھی اس وقت زندہ تھے میں گیا اور سراوان میں ان کے ساتھ ملاقات کی ۔
غرض علاقے کے بہت سارے دوست علماء تھے کہ جنہوں نے ندائے وحدت کا مثبت جواب دیا اس سے بڑھ کر کہیں خود ان کے دل میں حقیقت میں یہ ندا موجود تھی اسلامی اور ایرانی معاشرے کو اس اتحاد کا فائدہ ہوا انقلاب کے شروع میں کچھ ناپاک افراد کو استعمال کرتے ہوئے ایران شہر اور دوسرے مقامات پر کچھ لوگ چپقلشیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ اپنے مقصد تک نہیں پہونچ پائے اور جیسا اختلاف وہ چاہتے تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ پیدا نہیں ہو ا۔
میں خود اس سفر میں کہ جب میں ایران شہر پہونچا تو میں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو جمع کیا اور ایک جلسے میں ان کے ساتھ گفتگو کی تو میں نے ان سے کہا کہ نظام جمہوری اسلامی ایران پورے ملک میں واقعی عدل کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے لہذا ظلم زور زبردستی اور امتیازی سلوک کو صوبوں اور ملک کے قبیلوں کے درمیان برداشت نہیں کرے گا اور آپ اس کام میں مدد کریں میں نے ان سے کہا کہ یہ نظام گذشتہ نظام سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے چونکہ وہ نظام سیکیوریٹی اور جاسوسی اداروں اور ہتھیاروں پر اعتماد کرتا تھا لیکن یہ نظام لوگوں کے جذبات ان کے دلوں اور ان کی امنگوں پر بھروسا کرتا ہے ۔ ۱۶۔۸ ۔۱۳۷۹
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
جلا وطنی کے زمانے میں سب سے پہلے ہفتہ وحدت کی تشکیل
مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا دشمنوں کے پاس ہمیشہ کام آنے والا ہتھیار شیعوں اور سنیوں کے درمیان مذہبی اختلاف وغیرہ تھا۔جھگڑا کھڑا کرتے ہیں ، اختلاف پیدا کرتے ہیں ، بھائیوں کو ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں اختلافات کو بڑا کرتے ہیں اجاگر کرتے ہیں اتحاد اور اشتراک کے موارد کو کمزور کرتے ہیں ان کا رنگ پھیکا کرتے ہیں۔بات کا بتنگڑ بناتے ہیں اس کو نمایاں کرتے ہیں اتنے سارے مشترکات جو شیعہ سنی کے درمیان ہیں ان کو چھوٹا اور کمزور کرتے ہیں یہ کام ہے جو ہمیشہ ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔
جمہوری اسلامی پہلے روز سے ہی اس سازش کے سامنے ایستادہ ہے ؛وجہ یہ ہے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کر رہے ہیں ،یہ ہمارا عقیدہ ہے اسلامی نظام کی تشکیل سے پہلے ہمارے بھائی ، تحریک کے بڑے افراد ،اس زمانے میں بڑے انقلابی مجاہد ،کہ ابھی جمہوری اسلامی اور حکومت اسلامی کا نام ونشان تک نہیں تھا،شیعہ سنی کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ میں خود بلوچستان میں جلا وطن تھا ۔ اس وقت سے لیکر آج تک بلوچستان ، ایرانشھر ، چا بھار ، سراوان ،اور زاہدان کے سنی علماء کے ساتھ ان لوگوں کے ساتھ جو بحمد اللہ زندہ ہیں ہم دوست ہیں قریب ہیں اور صمیمی ہیں۔
میں وہاں جلا وطن تھا حکومت نہیں چاہتی تھی ہم وہاں کوئی جدوجہد کریں اس کے با وجود ہم نے کہا : آو اس شھر میں شیعہ اتحاد کا مظاہرہ کریں، تب یہ ہفتہ وحدت جو اہل سنت کی روایت کی بنا پر ۱۲ ربیع الاول پیغمبر کی ولادت ہے اور شیعوں کی روایت کے مطابق ۱۷ ربیع الاول ہے کا درمیانی ہفتہ ہمارے ذہن میں آیا اور ایرانشھر میں ہم نے اس پر عمل کیا یعنی ۱۲ سے ۱۷ ربیع الاول تک ہم نے جشن منایا یہ ایک گہری فکر تھی جو آج اور کل کی فکر نہیں تھی
۲۵ ۔۷۔۱۳۹۰
اسلامی اتحاد کی فکر کوئی زود گذر فکر نہیں ہے
اسلامی اتحاد کی فکر کوئی تازہ یا زود گذر نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے سنی اپنی جگہ پر سنی ہیں اور شیعہ بھی اپنی جگہ پر شیعہ ہیں دونوں کے اپنے عقائد اور اعمال ہیں اور کوئی دوسرے کو مجبور نہیں کرتا کہ تم میری طرح وضو کرو یا دوسرے اعمال انجام دو حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک خدا ایک قبلے ایک پیغمبر ایک طرح کے مقاصد اور اقدار اور ایک اسلام کے معتقد ہیں ہم ان چیزوں کو کیوں بھول جائیں ؟!
میں انہیں دنوں میں کہ جب جلا وطن تھا ۔آقائےمولوی قمر الدین جو یہاں بیٹھے ہیں ۔میں نے ان کو پیغام دیا ،میں خود ان کی مسجد میں گیا اور کہا کے آئیے کہ ۱۷ ربیع الاول کے درمیان ۔کہ ہم شیعہ ۱۷ ربیع الاول کو پیغمبر کی ولادت کا دن مانتے ہیں اور جشن مناتے ہیں ۔اور ۱۲ ربیع الاول کو ۔کہ آپ سنی حضرات پیغمبر کی ولادت کا دن مانتے ہیں ۔جشن منائیں ہم بھی جشن منائیں آپ بھی جشن منائیے ۔
اتفاق سے پہلے اور دوسرے دن ہی ایران شہر میں سیلاب آگیا جس نے ہر چیز کی بساط الٹ دی ہم لوگوں کی امداد کے کام میں جٹ گئے اور کچھ بھی نہیں کر سکے ان چیزوں پر آپ حضرات دھیان رکھیں بہت خوب ، طبیعی ہے کہ ہر شخص اپنے عقائد کے احترام اور ان کی قدر و قیمت کا قائل ہے لیکن اگر زید اپنے عقیدے کا احترام کرتا ہے تو کیا اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ عمر و کے عقیدے کی اہانت کرتا ہے ؟!
یا اگر عمرو اپنے عقیدے کا احترام کرتا ہے تو کیا اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ زید کی توہین کرتا ہے ؟!
کیوں ؟! دشمن یہی چاہتا ہے اور یہ آگ عجیب ہے اگر بھڑک جائے
اس وقت آپ دیکھیں ہماری سر حد کے پڑوس میں ہی اختلاف اور تفرقہ کے ہاتھ شیعوں اور سنیوں کو بھڑکا رہے ہیں انہی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو کافر فاسق اور اور ایسا ویسا مانتے ہیں اور قتل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں ان چیزوں پر زور دیتا ہوں اور یہ بنیادی نکتہ ہے جی ہاں میں اپنے دوستوں اور عزیز علماء کا شکر گذار ہوں کہ جنہوں نے اس سلسلہ میں کو ششیں کی ہیں لیکن ان کو ششو ں کو مزید گہرا کریں اور دوستیوں میں گہرائی پیدا کریں ہر شخص اپنےمذہب پر ثابت قدم رہے علمی اور فکری بحثیں بھی اپنی جگہ پر محفوظ رہیں یہ بہت اچھا ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن اختلاف سے ہوشیار رہیں لوگوں پر نظر رکھیں اور دشمن پر نگاہ رکھیں ۲۔۱۲ ۔ ۱۳۸۱
علماء نے ندائے وحدت کا مثبت جواب دیا
انقلاب کے شروع میں سب سے پہلی جگہ کہ جہاں امام نے ایک جماعت بھیجی میرے خیال میں وہ بلو چستان تھی امام نے مجھے بلایا اور ایک حکم بھی لکھا کہ جس کو ریڈیو سے نشر کیا گیا میں ایک جماعت کے ساتھ چل پڑا اور بلوچستان پہونچا ۔مرحوم مولوی عبدالعزیز ساداتی ملا زھی اس وقت زندہ تھے میں گیا اور سراوان میں ان کے ساتھ ملاقات کی ۔
غرض علاقے کے بہت سارے دوست علماء تھے کہ جنہوں نے ندائے وحدت کا مثبت جواب دیا اس سے بڑھ کر کہیں خود ان کے دل میں حقیقت میں یہ ندا موجود تھی اسلامی اور ایرانی معاشرے کو اس اتحاد کا فائدہ ہوا انقلاب کے شروع میں کچھ ناپاک افراد کو استعمال کرتے ہوئے ایران شہر اور دوسرے مقامات پر کچھ لوگ چپقلشیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ اپنے مقصد تک نہیں پہونچ پائے اور جیسا اختلاف وہ چاہتے تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ پیدا نہیں ہو ا۔
میں خود اس سفر میں کہ جب میں ایران شہر پہونچا تو میں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو جمع کیا اور ایک جلسے میں ان کے ساتھ گفتگو کی تو میں نے ان سے کہا کہ نظام جمہوری اسلامی ایران پورے ملک میں واقعی عدل کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے لہذا ظلم زور زبردستی اور امتیازی سلوک کو صوبوں اور ملک کے قبیلوں کے درمیان برداشت نہیں کرے گا اور آپ اس کام میں مدد کریں میں نے ان سے کہا کہ یہ نظام گذشتہ نظام سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے چونکہ وہ نظام سیکیوریٹی اور جاسوسی اداروں اور ہتھیاروں پر اعتماد کرتا تھا لیکن یہ نظام لوگوں کے جذبات ان کے دلوں اور ان کی امنگوں پر بھروسا کرتا ہے ۔ ۱۶۔۸ ۔۱۳۷۹
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com