Tuesday, 27 September 2016

خطبہ غدیر خم

 خطبہ غدیر خم


10

ھجری 

 کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ( ۱) سے تین میل

 

کے فاصلے پر رابغ [2] نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا <یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس> [3] اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ 



  1. آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوںکی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟
    لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
    غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :

    حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
    ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔
    اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔
    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔
    اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟
    اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔
    ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
    اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی ﷼ سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔
    اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف
    ر کھتا ہے ؟ “
    سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
    پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوںاور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “
    ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “
    جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، [4] اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں [5]
    اوپر لکھے خطبہ [6] کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریںگے )
    حدیث غدیر کی جاودانی :

    اللہ کا حکیمانہ اردہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اورلوگوںکے دل اس کی طرف جذب ہوتے رہیں۔اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب، اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔
    اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق ،تخیل اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کی عظمت کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف انداز سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار چھوڑیں (مرحوم علامہ امینیۺ نے مختلف صدیوں میں غدیر کے سلسلہ میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کی زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین اسلامی منابع سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو کہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ،بیان کیا ہے ۔)
    دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسے تاریخی واقعات ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفیوں، خطیبوں، شاعروں، مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں ۔
    اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں [7] لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان، المستعلی بن المستنصرکے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے ،لوگوں نے اس کی بیعت کی [8] اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں جب ذی الحجہ ماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ [9]
    دلچسپ یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھے اور اہتمام کرتے تھے [10] صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے [11]
    اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہیرکھی جا چکی تھی، کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو ۔
    زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہ وزبیر مہاجرین میں سے وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد دی۔ بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا [12]
    ۱۱۰ راویان حدیث :

    اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ [13]
    البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔
    دوسر صدی ، جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے اس میں ۸۹/ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
    بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اورعلماء اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔
    اس گروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔
    عجیب بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ۔
    ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵ افرادسے نقل کیا ہے ۔
    ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہے انھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔
    اہل سنت کے مشہورعلماء اور حدیث غدیر :

    احمد بن حنبل شیبانی ،ابن حجر عسقلانی،جزری شافعی،ابوسعید سجستانی،امیر محمد یمنی،نسائی،ابو الاعلاء ہمدانی اور ابو العرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں [14] کے ساتھ نقل کیا ہے۔
    شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھیں ہیں اور اہل سنت کی مشہور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے ،جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف مرحوم علامہ امینیۺ کے قلم کا شاہکار ہے۔ (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے (.
    بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً> [15] آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔
    اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا ۔
    اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:” جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ہوئے مبارکباد پیش کریں۔
    سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔
    حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہے ہیں :
    فقال لہ قم یا علی فاننی
    فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً
    فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ
    فکونو لہ اتباع صدق موالیا
    یعنی علی علیہ السلام سے فرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔ “
    جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علیمولا ہیں۔
    تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔ [16]
    یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔
    یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جو کہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی) [17] اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔ [18]
    اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوںکے سامنے، اسی حدیث سے استدلال کیا ۔ [19]
    مولیٰ سے کیا مراد ہے ؟

    یہاں پر سب سے اہم مسئلہ مولیٰ کے معنی کی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواہی کا نشانہ بنی ہوئہے ۔کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کی سندکے قطعی ہونے میں کوئی شک و تردید باقی نہیںرہ جاتی، لہٰذا بہانہ تراشنے والے افراد اس حدیث کے معنی و مفہوم میں شک و تردید پیدا کرنے میں لگ گئے، خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں ،مگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے ۔
    صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثر مقامات پر ایک سے زیادہ معنی نہیں دیتا اور وہ ”اولویت اور شائستگی “ہے دوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی ” سرپرستی “ ہے قرآن میں بہت سی آیات میں لفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
    قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ہوا ہے جن میں سے دس مقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ظاہر ہے کہ اللہ کی مولائیت اس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے ۔لفظ مولیٰ بہت کم مقامات پر دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنیادپر مولیٰ کے معنی میں درجہٴ اول میں اولیٰ، ہونے میںکوئی شک و تردید نہیں کرنی چاہئے ۔حدیث غدیر میںبھی لفظ مولا اولویت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ بہت سے ایسے قرائن و شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے ۔
    اس دعوے کے دلائل :

    فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں ،لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک و شبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔
    دلیل اول :

    جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا :
    فقال لہ قم یا علی فاننی
    فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً [20]
    یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔
    اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کوامامت، پیشوای ،ہدایت اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اور یہ شاعر عرب کے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے، بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء وادباء تھے اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے، انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔
    دوسری دلیل :

    حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ
    واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم [21]
    یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔
    امام سے بہتر کون شخص ہے، جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرامعنی نہیں سمجھا ؟
    تیسری دلیل :

    پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کوملانے کا ہدف کیا ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وہی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام؛نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔ [22]
    اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا، تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ انصاف سے کتنی دور ہوئ بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظرانداکردے اور تمام قرائن کی روشنی میں آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
    چوتھی دلیل :

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارکرایا اور فرمایا ”الست تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنة حق والنار حق ؟ یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟یہ سب اقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کر رہے تھے ، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصول کی مانندہے، جن کے سب معتقد ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟
    پانچویں دلیل :

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کے شروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں [23] یہ جملہ اس بات کا عکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ رحلت کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔
    جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اور کیا ہو قرینہ ہو سکتا ہے۔
    چھٹی دلیل :

    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ جملے کے بعد فرمایا کہ
    :” اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد
    ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی ،مودت ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں ؟سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی ﷼ کی ولایت سے راضی ہو گیا [24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟
    ساتویں دلیل :

    اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنة“ [25] یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔
    علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا، اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔
    آٹھویں دلیل :

    اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تویہ ضروری
    نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلہ کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پرلوگوں کو بیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا ۔
    کیا قرآن نے تمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے <انما المومنون اخوة> [26] مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کی ایک فرد تھے، لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلان کی الگ سے کیا ضرورت تھی؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ یقینا کوئ بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی ،کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔
    اب آپ فیصلہ کریں :

    اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا تو کیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریںگے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگر تمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی و صحیح نتیجوں پر پہونچیں گے اور یہ کام مسلمانوںکے مختلف فرقوں میں آپسی اتحاد میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل اختیارکر لیگا۔
    تین پر معنی حدیثیں :

    اس مقالہ کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔
    الف: حق کس کے ساتھ ہے؟

    زوجات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ”علی مع الحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض “
    علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ﷼ کے ساتھ ہے ،اور یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔
    یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہور کتابوں میںموجود ہے۔ علامہ امینیۺ نے ان کتابوں کا ذکر ا لغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے [27]
    اہل سنت کے مشہور مفسر قران، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ
    ” حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر
    سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:” اللہم ادرلحق مع علی حیث دار“ اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑے [28] قابل توجہ ہے یہ حدیث جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے ۔
    پیمان برا دری :

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے ایک مشہور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے :” آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بین ابی بکر و عمر، وفالان و فلان ، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بین اصحابک و لم تواخ بینی وبین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انت اخی فی الدنیا والآخرة “
    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا ،ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا اور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔اسی وقت حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ نے سب کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی
    کا بھائی نہیں بنایا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں “
    اسی سے ملتا جلتا مضمون اہل سنت کی کتابوں میں ۴۹ جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔ [29]
    کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیا ن بھائ کا رشتہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟ کیا افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کے پاس جانا چاہئے؟
    نجات کا تنہا ذریعہ :

    ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا :
    ” مثل اہلبیتی فیکم مصل سفینة نوح، من رکبہا نجیٰ ومن تخلف عنہا غرق “
    تمھارے درمیان میرے اہلبیت ﷼ کی مثال کشتی نوح جیسی ہے، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائ اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔ [30]
    جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا، اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا ۔یہاںتک کہ وہ اونچا پہاڑبھی
    ،جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ہواتھا نجات نہ دے سکا۔
    کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ،ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہونے کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟

    ________________________________________
    [1] یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاں سے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔
    [2] رابغ اب بھی مکہ اور مدینہ کے بیچ میں واقع ہے۔
    [3] سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷
    [4] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعد میں کوئی مغالطہ نہ ہو۔

    [5] یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یا فقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے ۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶( ب) تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷ ، ۲۰۸ ، ۴۴۸ ( ج)خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ ( د)المجمل کبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ ( ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳ ۲ ص/ ۱۳۵ ( ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ ( ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰ ،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱( ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴ ،اور دیگر کتب۔
    [6] اس خطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکیا ہے ۔جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱ ، ص/ ۸۴ ، ۸۸ ، ۱۱۸ ، ۱۱۹ ، ۱۵۲ ، ۳۳۲ ، ۲۸۱ ، ۳۳۱ ،اور ۳۷۰( ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱ ،ص/ ۵۵ ، ۵۸ ( ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوری ج/ ۳ ص/ ۱۱۸ ، ۶۱۳( ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ ( ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ ( و) تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴ ،اور دیگر کتب۔

    [7] سورہ مائدہ آیہ/ ۳ ، ۶۷
    [8] وفایة الآیان ۶۰/۱
    [9] وفایة الآیان ج/ ۲ ص/ ۲۲۳
    [10] ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵ ،الغدیر/ ۱ ،ص/ ۲۶۷
    [11] ثمار القبول اعیان/ ۱۱
    [12] عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶ ،ص/ ۱۰۴ ( ب) البدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ ( ج)الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ ( د)فرائد السمطین ،ج/ ۱ ،/ ۷۱ ،اسی طرح ابوبکر ،عمر،عثمان ،طلحہ و زبیر کی مبارکبادی کا ماجرا بھی بہت سی دوسر ی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسے مناقب علی بن ابی طالب ،تالیف :احمدبن محمد طبری ،الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰
    [13] اس اہم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے
    [14] سندوں کا یہ مجموعہ الغدیر کی پہلی جلد میں موجود ہے جو اہل سنت کی مشہور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے ۔
    [15] سورہٴ مائدہ آیہ/ ۳
    [16] حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی ،ص/ ۱۳۵ ،مقتل الحسین خوارزمی ،ج/ ۱ ،ص/ ۴۷ ،فرائد السمطین ج/ ۱ ،ص/ ۷۳ و ۷۴ ،النور المشتعل ،ص/ ۵۶ ،المناقب کوثر ج/ ۱ ،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲
    [17] یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں” مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمی حنفی ص/ ۲۱۷ ،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸ ،الدر النظیم ابن حاتم شامی ،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵ ، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲ ، شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱ ، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳ ،ص/ ۳۵ ،تفسیر طبری ج/ ۳ ص/ ۴۱۸ ،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت

    [18] فرائد السمطین سمط اول باب / ۵۸ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص/ ۳۶۲ ،اسد الغابہ ج/ ۳ ۲ ص/ ۳۰۷ وج/ ۵ ص/ ۲۰۵ ،الاصابہ ابن حجر عسقلانی ج/ ۲ ص/ ۴۰۸ و ج/ ۴ ص/ ۸۰ ،مسند احمد ج/ ۱ ص/ ۸۴ و ۸۸ ،البدایہ والنہایہ ابن کثیر شامی ج/ ۵ ص/ ۲۱۰ و ج/ ۷ ص / ۳۴۸ ، مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۰۶ ، ذخائر العقبیٰ ص/ ۶۷ ،(الغدیر ج/ ۱ ص/ ۱۶۳ و ۱۶۴ )
    [19] اسنی المطالب شمس الدین شافعی طبق نقل سخاوی فی الضوء اللامع ج/ ۹ ص/ ۲۵۶ ،البد رالطالع شوکانی ج/ ۲ ص/ ۲۹۷ ، شرح نہج البلاغہ اب ابی الحدید ج/ ۲ ص/ ۲۷۳ ، مناقب علامہ حنفی ص/ ۱۳۰ ،بلاغات النساء ص/ ۷۲ ،العقد الفرید ج/ ۱ ص/ ۱۶۲ ، صبح الاعشیٰ ج/ ۱ ص/ ۲۶۹ ،مروج الذہب ابن مسعود شافعی ج/ ۲ ص/ ۴۹ ، ینابیع المودة ص/ ۴۸۶
    [20] ان اشعار کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے
    [21] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی دوسری جلد میں صفحہ نمبر ۲۵ سے ۳۰ پر اس شعر کو دوسرے اشعار کے ساتھ ۱۱/ شیعہ علماء اور ۲۶ / سنی علماء کے حوالہ سے نقل کیا ہے
    [22] الست اولیٰ بکم من انفسکم“ اس جملہ کو علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد میں صفحہ نمبر ۳۷۱ / پر عالم اسلام کے ۶۴ / محدثین ومورخین سے نقل کیا ہے ۔
    [23] الغدیر ج/ ۱ ،ص/ ۲۶ ، ۲۷ ، ۳۰ ، ۳۲ ، ۳۳۳،۳۴ ، ۳۶،۴۷ اور ۲۷۶ پر اس مطلب کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کیا ہے جیسے صحیح ترمذی ج/ ۲ ص/ ۲۹۸ ، الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۲۵ ،المناقب الثلاثہ حافظ ابن فتوح / ۱۹ ،البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ و ج/ ۷ ص/ ۳۴۸ ،الصواعق المحرقہ ص/ ۲۵ ،مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۶۵
    [24] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۴۳ ، ۱۶۵ ، ۲۳۱ ، ۲۳۲ ، ۲۳۵ ، پر حدیث کے اس حصہ کا حوالہ ابن جریر کی طبری کی کتاب الولایة ص/ ۳۱۰ ، تفسیر ابن کثیر ج/ ۲ ص/ ۱۴ ،تفسیر الدرالمنثور ج/ ۲ ص/ ۲۵۹ ،الاتقان ج/ ۱ ص/ ۳۱ ،مفتاح النجاح بدخشی،ص/ ۲۲۰ ،ما نزل من القرآن فی علی ،ابونعیم اصفہانی تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۴ ص/ ۲۹۰ ،مناقب خوارزمی ص/ ۸۰ ،الخصائص العلویہ ابو الفتح نطنزی ص/ ۴۳ ، تذکرہ سبط بن جوزی ص/ ۱۸ ،فرائد السمطین باب/ ۱۲ سے دیا ہے ۔
    [25] شیخین کی تہنیت کے اسناد کو الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰ ، ۲۸۳ پر دیکھیں

    [26] سورہ حجرات آیہ/ ۱۰
    [27] اس حدیث کو محمد بن ابی بکر ، ابوذر و ابوسعید خدری و دیگر حضرات نے پیغمبر سے نقل کیا ہے (الغدیر جب ۳ )
    [28] تفسیر کبیر ج/ ۱ ص/ ۲۰۵
    [29] علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی تیسری جلد میںان پچاس کی پچاس حدیثوںکا ذکر ان کے حوالوں کے ساتھ کیا ہے۔
    [30] مستد رک حاکم ج/ ۲ ص / ۱۵۰ مطبع حیدر آباد،اس کے علاوہ اہل سنت کی کم سے کم ۳۰ مشہور کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیاگیا ہے

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...