Wednesday, 10 December 2014

جناب مرجع دینی ِبزرگوار،محترم سید السیستانی کے ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم, Home


 
سوال و جواب » ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم


۱ سوال: ارشادات برائے زیارت امام حسین ؑ بروز چہلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جناب مرجع دینی ِبزرگوار،محترم سید السیستانی(مدظلہ)
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ ۔۔اللہ آپ کو مصیبت امام حسین ؑ میں اجر عظیم عطاء فرمائے۔
اب جبکہ ھم لوگ چہلم امام مظلوم سید شہداء علیہ سلام کی مناسبت سے کربلاء مقدسہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں تو اس سلسلے میں آپ کے پدرانہ ارشادات کے محتاج ہیں جو خاص طور پر اس مناسبت کے کیئے ہو تاکہ اس زیارت کا فائدہ برتر اور اجر عظیم تر ہوجائے اور جن امور سے ھم غافل ہیں یا جن چیزوں کے اجر و ثواب کو ھم نہ جانتے ہوں ان کے بارے میں ایک تنبیہ ہو جائے ساتھ ھی ھم امید کرتے ہیں کے یہ ارشادات معاشرے کے ہر طبقےکے افراد کے لیئے ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپکے وجود مبارک کی نعمت تا دیرباقی رکہے۔
از طرف مجموعہ مومنین۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین۔
بعد از آں جن مومنین کو اللہ تعالی نے اس زیارت ِشریفہ کی توفیق دی ہےانہیں اس بات کی طرف ملتفت ہونا چاہیئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے انبیاء و اوصیاء قرار دیئے تاکہ وہ لوگوں کے لیئے اسوہ و نمونہ عمل اور ان پر اللہ کی حجت قرار پائیں اور ایسا اسلیئے کہ لوگ انکے افعال کی اقتداء کرتے ہوئے انکی تعلیمات سے ھدایت حاصل کریں ۔اور اسہی نے ان کے ذکر کو باقی رکہنے اور ان کے مقام و منزلت کو بلند رکہنے کے لیئے ان کی زیارت کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی ۔تاکہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ اور اسکی تعلیمات و احکام کا تذکرہ باقی ر ہے۔ اور بیشک یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں کہ جو پروردگار کی اطاعت،اسکی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین ِقویم کی خاطر قربانی دینے میں مثل اعلیٰ ہیں۔
پس اسہی بنا پر اس زیارت کے تقاضوں میں سے ہے کہ امام حسین ؑ کی فی سبیل اللہ قربانی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی تعلیمات جیسا کہ نماز۔حجاب۔اصلاح ۔عفوو درگزر حلم۔ادب۔حرمات الطریق(عام راستوں پر حق عام کا خیال رکہنا) اور دیگر تمام اعلیٰ معانی کی مراعات ہونی چاہیئے ۔تاکہ یہ زیارت بفضل خداوند تعالیٰ ان اچھے آداب و اقدار کی تربیت دینے کیلیئے ایک ایسا قدم ہو سکے جسکے آثار دائمی و تا دیر برقرار رہیں حتی کہ مستقبل میں آنے والی زیارتوں کے لیئے بھی یادگار رہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ ان زیارتوں میں حاضر ہونا خود امام (ع) کی مجالس تعلیم و تربیت میں حاضر ہونے جیسا ہے۔
ہمیں اگرچہ دورِ حضور آئمۃ اھل بیت ؑ تو حاصل نہیں ہواکہ ھم خود ان سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے اور انہی کے دست مبارک سے پرورش پاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیئے انکی تعلیمات اور ان کے موقف کو محفوظ فرمایا اور ہمیں انکے مشاھد و مزارات کی زیارت کا شوق عطاء کیا تاکہ وہ ہمارے لیئے روشن مثالیں قرار پائیں۔اور ساتھ ہی اس زیارت کے ذریعے ہمارے اس دعوے کی سچائی کا امتحان بھی مقصود ہے کہ جو ھم ان حضرات کی رفقت کی تمنیٰ کرتے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ھم انکی تعلیمات و موعظۃ کو کس قدر قبول کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے آئمۃ ؑ کے ساتھ رہنے والوں کا امتحان لیا تھا ۔
اب ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیئے کہ کہیں ہمارا شوق و تمنی حقیقت میں غیر صادق تو نہیں ۔ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر ھم ویسے ہی بن جائیں کہ جیسا اہل بیت ؑ چاہتے ہیں توامید ہے کہ ھم بھی ان کے ساتھ زندگی کزارنے والے ساتھیوں میں ہی محشور ہوں گے۔
جناب امیر المومنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ؑ نے جنگ جمل کہ موقع پر فرمایا(یقیناًہمارے ساتھ اسوقت وہ لوگ بھی حاضر ہیں کہ جو ابھی تک مردوں کے اصلاب اور عورتوں کےارحام میں موجود ہیں)۔ پس ھم میں سے جو بھی تمنائے اھل بیت ؑ میں سچا ہوگا اسکے لیئے دشوار نہ ہوگا کہ تعلیمات اھل بیت ؑ پر عمل کرے اور انہی کی اقتداء کرے تاکہ وہ ان حضرات کی پاکیزگی سے تذکیہ حاصل کرے اور انہی کے آداب سے آراستہ ہو جائے۔
اللہ اللہ نماز کا خیال کیا جائے!!جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ یہ عمود (ستون) دین اور معراج مومنین ہے اگر یہ قبول ہوگئی تو باقی سب بھی قبول ہوگا اور اگر یہ رد ہوگئی تو پھر باقی سب اعمال رد ہوجائیں گےمناسب یہی ہے کہ نماز کی پابندی اول وقت میں ہی کی جائے،چوں کہ اللہ کامحبوب ترین بندہ وہ ہے جو اسکی نداء پر سب سے پہلے لبیک کہے۔اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مومن اول وقت نماز میں کسی اور اطاعت گزاری کے کام میں مشغول ہو۔یہ نماز خود سب سے افضل اطاعت ہے۔اور اہل بیت ؑ سے ہی وارد ہوا ہے کے (ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی جانتےہوں)۔اورخود امام حسین ؑ بھی یوم عاشوراء بھی نماز کا خاص خیال کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اس شخص سے فرمایا جس نے اول وقت میں نماز کا تذکرہ کیاتھا( تم نے نماز کو یاد کیا ،اللہ تمہیں مصلینِ ذاکرین میں سے قرار دے) پھر امام ؑ نے تیروں کی بارش میں میدان قتال میں نماز ادا کی۔
اللہ اللہ اخلاص کا سوچیں! کیوں کہ انسان کے عمل کی قدر و قیمت اور اسکی برکت اس ہی مقدار میں ہے کہ جتنی مقدار میں اللہ تعالیٰ کے لیئے اسکا اخلاص ہوگا ۔بیشک اللہ تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتا اس ہی کے لیئے ہو اور اس کے غیر کی طلبگاری سے خالی ہو۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ جملہ مسلمانوں کی مدینہ ھجرت کے وقت وارد ہوا کہ یقیناً جو کوئی اللہ ورسول کی طرف مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت تو اللہ کے لیئے ہوئی،اور جو دنیا کی جانب مھاجر ہوا تو اسکی ھجرت دنیا ہی کے لیئے ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً ثوابِ عمل کو درجہ اخلاص کے حساب سے بڑھا دیتا ہے حتی کہ سات سو گنا اضافہ بھی کردیتا ہے،اور اللہ تو جس کے لیئے چاہے اضافہ کرتا ہے۔
بس زائرین کو چاہیئے کہ راہ زیارت میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور اپنے ہر قدم، ہر عمل میں اخلاص پیدا کریں اور یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کوایسی کوئی نعمت مرحمت نہیں فرمائی کہ جیسی نعمت اعتقاد ، قول اور فعل میں اخلاص کی نعمت ہے۔بغیر اخلاص انجام دیا جانے والا عمل اس زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص عمل مبارک و دائمی ہوگا ،جو اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد بھی باقی رہے گا۔
اللہ اللہ پردہ و حجاب کا خیال رہے،بیشک یہ وہ مھم ترین چیز ہے کہ جسکا اھل البیت علیہم السلام نے خیال رکہا حتی کہ کربلاء میں ان شدید مصائب میں بھی اھتمام کیاکہ وہ اس معاملے میں مثل اعلیٰ ہیں۔اور انہوں نے دشمنوں کے حملوں سے بھی اتنی اذیت نہیں اٹھائی کہ جتنی تکلیف لوگوں کے سامنے بے پردگی و ہتک حرمت سے انہیں ہوئی۔لہذا تمام زوّار خاص طور پر مومنات پر لازم ہے کہ وہ اپنے لباس و منظر میں اور اپنے تمام افعال میں عفت کے تقاضوں کو پورا کریں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں کہ جو اس تقاضہ عفت کے منافی ہو جیسا کہ تنگ لباس زیب تن کرنا، لوگوں میں ایسے مخلوط ہونا کے جو باعث مذمت ہو،یا ایسی زینت کرنا کے جس سے منع کیا گیا ہے ۔بلکہ اس عظیم زیارت ،ان شعائر مقدسہ کو ہر قسم کی نامناسب تہمتوں سے دور رکہنے کے لیئے، منافیء عفت چیزوں سے ہر ممکن اورآخری درجہ تک اجتناب کرنا چاہیئے۔
ھم اللہ تعالیٰ سے ملتمس ہیں کے نبی المصطفیٰ ﷺاور انکے اھل بیت کے مقام کو دنیا وآخرت میں مزید بلند فرما ئےان قربانیوں کی بناء پر جو انہوں نے اسکی راہ میں دیں اور وہ
جدوجہد جو اسکی خلق کی ھدایت کے لیئے کی۔اور ان پر وہ عظیم صلوات نازل فرما کہ جیسی انسےپہلےمصطفین،بالخصوص ابراھیم وآل ابراھیم (علیھم السلام)پر نازل کی۔اور اس ذات تعالیٰ سے یہ بھی دعاء ہے کہ زوارِ ابی عبداللہ الحسین (ع) کی زیارت میں برکت عطاء فرمائے اور جو قبولیت وہ اپنے عباد صالحین کے عمال پر دیتا ہے اس زیارت کو اس سے بھی افضل شرف قبولیت عطاء فرمائے۔تاکہ زائرین اس زیارت اور اسکے بعد کی زندگی میں اپنے سیر وسلوک کے ساتھ دوسروں کے لیئے ایک مثال بن جائیں۔اور انکواھل بیت(علیھم السلام) سے انکی ولایت و محبت ،اپنی زندگی میں انہی کی اقتداء کرنے، اور پیغام اھل بیت کی تبلیغ کرنے پر جزائے خیر عنایت فرمائے ۔امید ہے کہ انہیں روز قیامت اھل بیت (ع) کے ساتھ بلایا جائے گا جیسا کہ ہر شخص کو اسکے امام کے ساتھ بلایا جانا ہے۔اور ان کے شھداء کو شھداء امام حسین (ع) اور انکے اصحاب کے ساتھ محشور فرمائے چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں کو قربان کیا اور ولایت کی خاطر ظلم و ستم سہے۔بیشک کہ وہ بہت سنے والا اور جواب دینے والا ہے۔

Tuesday, 9 December 2014

امام رضا (ع) کي دس احاديث,Home

امام رضا (ع) کي دس احاديث

امام رضا (ع) کی دس احادیث
1- قالَ الرضا عليه السلام: الصَّلوةُ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَاللّهِ عَزَّوَ جَلَّ التَّسْبيحَ وَالتَّهْليلَ وَالتَّكْبيرَ-(1)
امام رضا (ع) نے فرمايا: محمد اور اہل بيت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر صلوات اور تحيّت کا ثواب سبحان اللّه ، لا إ له إلاّاللّه ، اللّه اكبر کے ثواب کے برابر ہے-
2- قالَ الرضا عليه السلام: لَوْخَلَتِ الاْ رْض طَرْفَةَعَيْنٍ مِنْ حُجَّةٍ لَساخَتْ بِاهْلِها (2)
اگر زمين لمحہ بھر حجت سے خالي ہوجائے تو يہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گي-
3- قالَ الرضا عليه السلام : عَلَيْكُمْ بِسِلاحِالاْ نْبياءِ، فَقيلَ لَهُ: وَ ما سِلاحُ الاْ نْبِياءِ؟ يَا ابْنَ رَسُولِ اللّه ! فَقالَ عليه السلام : الدُّعاءُ- (3)
آپ کو انبياء عليہم السلام کا ہتھيار استعمال کرنا چاہئے، پوچھا گيا: انبياء عليہم السلام کا ہتھيار کيا ہے؟ امام عليہ السلام نے قرمايا: انبياء عليہم السلام کا ہتھيار خدا کي طرف توجہ دينا، دعا کرنا اور خدا سے مدد مانگنا ہے-
4- قالَ الرضا عليه السلام : صاحِبُ النِّعْمَةِ يَجِبُ عَلَيْهِ التَّوْسِعَةُ عَلى عَيالِهِ- (4)
نعمت و دولت کے مالک  کو اپني قوت کے مطابق اپنے اہل و عيال کے لئے خرچ کرنے چاہئے-
5- قالَ الرضا عليه السلام : المَرَضُ لِلْمُۆْمِنِ تَطْهيرٌ وَ رَحْمَةٌ وَلِلْكافِرِ تَعْذيبٌ وَلَعْنَةٌ، وَ إ نَّ الْمَرَضَ لايَزالُ بِالْمُۆْمِنِ حَتّى لايَكُونَ عَلَيْهِ ذَنْبٌ (5)
بيماري مۆمن کے لئے رحمت اور گناہوں کي مغفرت کا سبب اور کافر کے لئے عذاب اور لعنت ہے-
امام عليہ السلام نے مزيد فرمايا: بيماري ہميشہ مۆمن کے ہمراہ ہے تا کہ اس کا کوئي گناہ باقي نہ رہے اور موت کے بعد آسودہ خاطر ہو- (جاری ہے)

حوالہ جات:
1- امالى شيخ صدوق ص 68، بحارالا نوار: ج 91، ص 47، ضمن ح 2-
2- علل الشّرايع : ص 198، ح 21-
3- بصائرالدّرجات : جزء 6، ص 308، باب 8، ح 5-
4- وسائل الشّيعة : ج 21، ص 540، ح 27807-
5- بحارالا نوار: ج 78، ص 183، ح 35، ثواب الا عمال : ص 175-

ہفتہ وحدت کا نام کیسے رکھا گیا؟, Home





ہفتہ وحدت کا نام کیسے رکھا گیا؟
           
شفقنااردو(بین الاقوامی شیعہ خبررساں ادارہ) - امام خامنہ ای فرماتے ہیں :مجھے وہاں(سیتسان و بلوچستان) جلا وطن کیا گیا تھاحکومتی عناصر نہیں چاہتے تھے کہ ہم وہاں کچھ کر پائیں اس کے باوجود ہم نے کہا :آو کچھ ایسا کریں کہ اس شہر میں شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ نیوزنور کے مطابق 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے ہفتہ  عید میلاد النی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہفتے کا نام" ہفتہ وحدت "کیسے پڑ گیاجاننا دلچسپ ہوگا کہ یہ نام ایران میں  اسلامی  انقلاب کی کامیابی کے بعد کا نہیں  بلکہ یہ نام انقلاب سے پہلے ہی ایران کے سنی اکثریتی صوبہ سیستان و بلوچستان میں رکھا گیا تھا اس زمانے میں کہ جب قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ایران شھر جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے اس نام کےرکھے جانے کی روایت کو ہم  رہبر انقلاب کے الفاظ میں پڑھتے ہیں:.

Sunday, 30 November 2014

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد



 مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد
جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م

 عظیم سرور                                                                                                   
 مکہ سے خبر آئی کہ ہمارا دوست امان اللہ جو مکہ معظمہ میں 50 سال سے مقیم اور سعودی شہری تھا، انتقال کر گیا۔ امان اللہ ایک خوش قسمت شخص تھا کہ وہ ایک متبرک خوشبو کا شاہد تھا۔ اس کے انتقال کی خبر سنی تو بے اختیار مجھے خوشبو کا وہ واقعہ یاد آیا اور اس کا تذکرہ اس کالم میں کرنے کا خیال آیا کیونکہ ایک خوشبو نے امان اللہ کی زندگی بدل دی تھی۔
امان اللہ سے 80ء کی دہائی میں عارف الحق عارف کے توسط سے دوستی ہوئی تھی اور ایک عمرے کے موقع پر ہم امان اللہ کے گھر مہمان بھی رہے تھے۔ امان اللہ برمی نژاد پاکستانی تھے۔ جب سعودی حکومت نے برمیوں کو اپنے ملک کے ویزے دیئے تو امان اللہ اپنے والد کے ساتھ مکہ کے شہری بن گئے۔ چھوٹی سی عمر میں وہ ایک سنار کی دکان میں ملازم ہوگئے۔ مروہ پہاڑی کے پاس پرانے صرافہ بازار کی دکان میں وہ کام کیا کرتے تھے۔ میں نے یہ دکان دیکھی ہے لیکن اب یہ بازار حرم پاک کا حصہ بن گیا ہے۔

امان اللہ بتاتے ہیں کہ ان کی دکان کے سامنے کی دکان ایک بخاری کی تھی۔ وہ صبح سویرے وہاں تلاوت کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور دکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہاں رک جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے؟ امان اللہ دکان کے اس کونے میں گئے۔ وہاں کوئی غیر معمولی چیز نظر نہ آئی لیکن ایک عجیب مسرور کن خوشبو وہاں پھیلی ہوئی تھی۔ بوڑھے بخاری سنار نے پوچھا ”کیا دیکھا؟“ تو امان اللہ نے بتایا کہ دیکھا تو کچھ نہیں البتہ ایک بہت خوشبو وہاں ہے اور میں نے آج تک ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔ بخاری نے کہا… ”ہاں میں یہی جاننا چاہتا تھا کیونکہ کبھی کبھی دکان کا یہ کونا اس خوشبو سے مہک جاتا ہے میں سمجھتا تھا یہ میرا وہم ہے یا یہ میرے خیال کی خوشبو ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ میں کسی بچے کو وہاں بھیجوں اور دیکھوں کہ اس خوشبو کی حقیقت کیا ہے؟

امان اللہ، اس کے بعد اپنی دکان میں آکر بیٹھ گئے۔ یہ خوشبو ان کے ذہن سے گویا پورے جسم میں سما گئی تھی۔ ان کو بے پایاں خوشی کا انوکھا احساس ہو رہا تھا۔ وہ اسی خوشبو سے سرشار بیٹھے تھے کہ دکان کا عرب مالک آگیا اور اس نے کہا کہ ” بچہ! آج سے یہ دکان تیری ہے۔ اب میں یہاں نہیں آؤں گا۔ اس دکان میں اتنا حصہ تیرا، اتنا میرا اور مجھے میرا حصہ گھر پر پہنچا دیا کرنا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14,13 سال کا بچہ کروڑ پتی بن گیا۔ وہ ایک دم سے سونے کی دکان، 3کارخانوں اور منوں سونے کا مالک بن گیا تھا۔ سب لوگ اس کے نصیب پر رشک کرتے، کوئی اس کی ایمانداری کو اس کا سبب بتاتا، کوئی اسے عرب سنار کی دریا دلی کہتا۔ لیکن امان اللہ اسے اللہ کا فضل کہا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ یہ تبدیلی اس خوشبو کا فیضان ہے اور اس خوشبو کا شاہد بنانا بھی اللہ ہی کا فضل تھا۔

امان اللہ ہر سال زکوٰة کی مد میں کروڑوں روپے نکالتا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت دینی مدرسوں کے علاوہ برما کے مسلمانوں کو وہ ہر سال یہ رقم پہنچاتا تھا۔ اس کے ریکارڈ میں اداروں اور ضرورت مندوں کی طویل فہرست تھی۔

جب ہم مکہ کے پرانے صرافہ بازار میں اس کی دکان دیکھنے گئے تو وہاں توسیع حرم کے سلسلے میں کھدائی شروع تھی۔ دو سال بعد معلوم ہوا کہ یہ بازار ختم ہوگیا اور امان اللہ کو ایک دکان کے بدلے حرم پاک کے اطراف میں تین دکانیں الاٹ ہوگئیں۔ ہم نے یہ دکانیں بھی دیکھی تھیں۔

پرانے صرافہ بازار کی کھدائی ہوئی، دکانیں ٹوٹیں تو معلوم ہوا کہ بخاری سنار کی اس دکان کے اس کونے میں جہاں سے خوشبو اٹھتی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ کے گھر کا ایک ستون آرہا تھا۔ یہ وہی دکان تھی جہاں کئی سال پہلے امان اللہ نے خوشبو کا فیض حاصل کیا تھا۔ وہ اس مقام پر پہنچا۔ وہاں کھڑا ہوا اس ستون کو دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ امان اللہ جب بھی کسی کو یہ واقعہ سناتا تو اس کی آواز بھرا جاتی تھی۔ میں امان اللہ کو خوش نصیب شخص کہا کرتا ہوں۔ جو کچھ اس کو ملا وہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ کرم کے فیصلوں کے حامل ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے پوچھنے والا پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ تو وہ خوشبو کیسی تھی؟ وہ کہتا تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ خوشبو کیسی تھی، لیکن وہ میری روح میں رچی ہوئی ہے، میرے دل میں بسی ہوئی ہے۔ سچ ہے۔ کون دلاں دیاں جانے ہو....



بہ شکریہ روزنامہ جنگ


Thursday, 27 November 2014

Home, بی بی زہرا یہ دعا ہے آپ کے دربار میں


 

يا فاطمہ ام ابيھا بنت پیعمبرۖ خیرالنساء
یا زہــــــرا یا زہــــــرا
تو ہے صدیقہ تو طاہرہ اور تو ہی شفیع روز جزا
اے میری بی بی وقت مدد ہے ہر ماتمی کے دل کی صدا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
دست دعا کو جب بھی اٹھایا
مانگا ہے تیری چادر کا سایہ
وقت مصیبت میں ہر حسینی
بس نام تیرا ہونٹوں پہ لایا
اے میری بی بی تنگ دست ہوں میں
یہ کہہ کے دامن پھیلا دیا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
وہ بی بی جس کی ہے گود خالی
چوکھٹ پہ تیری ہے وہ سوالی
مجھ کو بھی دے دے اصغر کا صدقہ
میں نے تیرے در سے لو لگالی
اے میری بی بی جن گودیوں میں
اولاد ہے وہ تیری عطا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو مائيں بہنیں بے آسرا ہوں
فرش عزا پر محو بکاہ ہوں
تو ان کے پردوں کی لاج رکھیو
جو تیری زینب کی ذاکرہ ہوں
اے میری بی بی زندہ رہے وہ
بھائ جو بہنوں کا آسرا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو طفل رو کر پڑھتے ہیں نوحہ
ہر آٹھویں کو بنتے ہیں سقہ
ہر روشنی کی ہیں یہ ضمانت
یہ ہیں چراغ بزم عزاء
اے میری بی بی بجھنے نہ پائيں
عون و محمد کا واسطہ ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو اپنے بیٹوں کا بھول کر غم
کرتی ہوں تیرے اکبر کا ماتم
ان ماؤں کو تو دے صبر بی بی
وہ پھر نہ دیکھیں اولاد کا غم
اے میری بی بی اس ماں کو کوئ
غم نہ ہو جس کو یہ غم ملا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
ہے یاد اب تک پر درد منظر
پیاسے کی گردن ظالم کا خنجر
ہم تیرے پیاسے بیٹے کا صدقہ
یوں مانگتے ہیں فرش عزا پر
اے میری بی بی آباد رکھنا
وہ گھر کہ جس میں فرش عزا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
شبیر کی وہ مظلوم دختر
زندان سے جو نہ جا سکی گھر
صدقے میں اس کے ہم پر کرم کر
بے جرم قیدی کہتے ہیں روکر
اے میری بی بی اب یہ اسیری
ہو ختم عابد کا واسطہ ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
عرفان و مظہر یہ چاہتے ہیں
مل جاۓ ہم کو بس یہ سعادت
جو آخری ہے حجت خدا کی
ہو جاۓ ہم کو اس کی زیارت
اے میری بی بی یہ بات وہ ہے
جو ہر حسینی کی التجا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
التماس :
ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود 

حسین جعفری کے لے

التماس : ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود حسین جعفری کے لے

التماس :
ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود حسین جعفری کے لے

Home, سلام آخر سلام یتیموں پہ سوگواروں کا


 سلام آخر
سلام یتیموں پہ سوگواروں کا
غریب دیتے ہیں پرسہ تمہارے پیاروں کا
سلام ان پر جنہیں شرم کھاۓ جاتی ہے
کھلے سروں پہ اسیری کی خاک آتی ہے
سلام ان پر جو زحمت کش سلاسل ہے
مصیبتوں میں امامت کی پہلی منزل ہے
سلام بھیجتے ہیں اپنی شہزادی پر
کہ جس کو سونپ گۓ مرتے وقت گھر سرور
مسافرت نے جسے بے بسی یہ دکھلائ
نثار کردیے بچے نہ بچ سکا بھائ
اسیر ہو کے جسے شامیوں کے نرغے میں
حسینیت ہے سکھانا علی کے لہجے میں
سـکـینـہ بی بی تمہارے غلام حاضر ہیں
بجھے جو پیاس تو اشکوں کے جام حاضر ہیں
یہ سن یہ حشر یہ صدمے نۓ نۓ بی بی
کہاں پہ بیٹھی ہو خیمے تو جل گۓ بی بی
پہاڑ رات بڑی دیر ہے سویرے میں
کہاں ہو شام غریباں کے گھپ اندھیرے میں
زمین ہے گرم یتیمی کی سختیاں بی بی
وہ سینہ کہ جس پہ سوتی تھی اب کہاں بی بی
جناب مادر بیشیر کو بھی سب کا سلام
عجیب وقت ہے کیا دیں تسّـلیوں کا پیام
ابھی کلیجے میں آگ سی لگی ہوگی
ابھی تو گود کی گرمی نہ کم ہوئ ہوگی
نہیں اندھیرے میں کچھ سوجھتا کہاں ڈھونڈیں
تمہارا چاند کہاں چھپ گيا کہاں ڈھونڈیں
نہ اس طرح کوئ کھیتی ہری بھری اجڑی
تمہاری مانگ بھی اجڑی ہے کوکھ بھی اجڑی
نہیں لعینوں میں انساں کوئ خداحافظ
درندے اور یہ بے وارثی خداحافظ
شہید کے حق اے درود و سلام اے پیغمبر
سلام سید لولاک کے لٹے گھر پر
سلام محسن اسلام اسد اللہ کو
سلام تم پر شہیدوں کے بے کفن لاشوں
سلام تم پر رسول و بتول کے پیاروں
سلام مہر شہادت کے گرد سیاروں
بچے تو اگلے برس ہم ہیں اور یہ غم پھر ہے
جو چلے بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہے

Home, چلے آؤ اے زواروں چلے آؤ میری آواز پہ لبیک پکارے چلے آؤ لـــبیک یـــاحــسـین


سلام یاحسین(ع)۔
بس یاحسین(ع)۔
یاعلی یاحسین(ع)۔
جہاں حسین وہاں لاالہ اللہ
ہمارے ہیں یاحسین(ع)۔
ابدواللہ یازہرا(س)۔
لبیک یاحسین(ع)۔
مولا لبیک، لـبـیـک یـــا ابـــاعــبـدالــلہ
اے میرے مولا
شاہ کربلا
بخشش کا شفا کا
ہیں آپ وسیلہ
روضہ پہ بلالو
زوّار بنادو
قسمت کو جگادو
اے شاہ شہیداں
اعجاز دکھادو
مولا اب ہم کو صدا دو
مولا اب۔۔
چلے آؤ، چلے آؤ، چلے آؤ
چلے آؤ اے زواروں چلے آؤ
میری آواز پہ لبیک پکارے چلے آؤ
لـــبیک یـــاحــسـین
نام تم سب کے میرے در پہ لکھے ہیں آؤ
اپنے ماں باپ کو اس پاک سفر میں لاؤ
اپنے بچوں کو بھی احرام عزا پہناؤ
میرے زواروں میری کرب و بلا آجاؤ
عہد کرتا ہوں عزاداروں شفاعت کے لیے
آؤ زواروں چلے آؤ زیارت کے لیے
چلے آؤ۔۔۔
خوش رہو اے میری روداد سنانے والوں
اپنی خوشیوں میں میرا سوگ منانے والوں
سارے عالم میں میرا فرش بچھانے والوں
گرمی سردی میں میری قبر پہ آنے والوں
مجھ کو معلوم ہے تم لوگوں کی حاجت آؤ
تم پہ ہوجاۓ گی اللہ کی عنایت آؤ
چلے آؤ۔۔۔
جانب کرب و بلا جب کوئی بڑھتا ہے قدم
ہر قدم پہ میرے زوار پہ ہوتا ہے کرم
سایہ کرتا ہوا عباس کا چلتا ہے علم
متنظر رہتی ہیں زہرا میرے بابا کی قسم
میرے زواروں میرے درد کے مارو آؤ
میری ماں فاطمہ زہرا(س) کے دلاروں آؤ
چلے آؤ۔۔۔
تم جو کہتے ہو ابد واللہ ماننسا حسین
امّاں زہرا بھی یہی کرتی ہیں رو رو کر بین
میری مظلومی پہ روۓ ہيں شہہ بدروحنین
میرے بابا بھی ہیں اب تک میرے عم میں بے چین
تم نہیں بھولے تو میں بھی نہیں بھولا تم کو
یاد چلتے ہوۓ خنجر میں بھی رکھا تم کو
چلے آؤ۔۔۔
تم جو لہراتے ہو ہاتھوں میں اٹھاۓ پرچم
تم کو معلوم ہے ہوجاتا ہے تازہ میرا غم
یاد آتا ہے مجھے خون میں ڈوبا وہ علم
جس کے جھک جانے سے ٹوٹا میرے بچوں پہ ستم
میری عباس کی جاگیر سجانے آؤ
حاضری روضہ عباس پہ کھانے آؤ
چلے آؤ۔۔۔
میرے زواروں سنو
یہ زمیں کرب و بلا
اس سے پہلے تو یہاں
کوئی بھی بس نہ سکا
یہ زمین کرب و بلا تو کرب کا مجموعہ ہے
حضرت آدم(ع) و حوّا(ع) کا یہی گریہ ہے
شیر نے حضرت عیسی(ع) کو یہیں روکا ہے
اور پھر تخت سلیمان(ع) یہیں لرزہ ہے
اس زمیں پر ہی ابراہیم(ع) کا رہوار دھنسا
پاۓ موسی(ع) میں لگی شوٹ لہو بہنے لگا
ذبیح اللہ(ع) کے رہوار رہے پیاسے یہاں
کشتی نوح سے ٹکرایا یہیں پر طوفاں
اس زمیں پر تو پریشاں ہوا ہر انساں
میرے بابا بھی یہاں کرتے رہے آہ و فغاں
میری ہجرت تھی مدینے سے ہدایت کے لیے
یہ زمیں میں نے خریدی تھی شہادت کے لیے
چلے آؤ اے زوّاروں چلے آؤ۔۔
دو محرم کو یہاں میرا رہوار رکا
ساتھ کنبہ تھا میرا میں اکیلا بھی نہ تھا
آؤ زواروں میرے ساتھ چلو
تھام کر دل ‘ میرا مقتل دیکھو
یہ مقام علی اکبر ہے جہاں
میرے بچے پہ جہاں روئی اذاں
یہ مقام علی اصغر ہے جہاں
آج بھی بیٹھی ہوئی روتی ہے ماں
یہ جگہ وہ ہے میرے زواروں
لاش قاسم ہوئی پامال ادھر
دو مقامات جو آتے ہیں نظر
کٹے عباس کے بازو تھے جدھر
ہیں ذرا دور جو دو دل کے قرار
ہیں میرے عون و محمد کے مزار
عصر عاشور سے تربیت کے قریں
میرا حر اور میرا لشکر ہے یہیں
اور یہ تلّہ زینبیہ ہے
یہیں زینب نے یہ منظر دیکھا
مجھ پہ چلتا ہوا خنجر دیکھا
میرا عاشور یا چہلم ہو میرا
کربلا آتا ہے کنبہ میرا
پھر سکینہ جو یہاں آتی ہے
میری تربت سے لپٹ جاتی ہے
یاحسین، یاحسین، یاحسین
میں ہوں حسین – حسین حسین
عبدخدا – حسین حسین
خون نبی(ص) – حسین حسین
خون علی(ع) – حسین حسین
خون حسن(ع) – حسین حسین
زہرا(س) – حسین حسین
شاہ عرب – حسین حسین
میں ہوں الغطا – حسین حسین
میں ہوں شفا – حسین حسین
اہل عزا – حسین حسین
روز جزا – حسین حسین
دیں گے تجھے – حسین حسین
و___ و کرم – حسین حسین
باغ ارم – حسین حسین
میں ہوں حسین – حسین حسین
تم پہ سلامِ کربلا ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ شہداء ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ سیدہ(س) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ مرتضی(ع) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ مصطفی(ص) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلام باوفا ، ماتمی – حسین حسین
تم ہو دل زینبِ کبری کا چین – حسین حسین
کرتے رہو ‘ کہتے رہو یاحسین – حسین حسین
سیدنا ‘ سیدنا یا حسین – حسین حسین
يــــــا حــــــــســـیـــن – علیہ سلام

Home, ھل من ناصر ینصرنا کوئ ہو تو چلے’خدایا


خدایا خدایا خدایا خدایا
ھل من ناصر ینصرنا
کوئ ہو تو چلے’خدایا
کوئ ہو تو چلے’استغاثہ ہے سردار
کوئ ہو تو چلے’ایک پیاسے پہ ہے یلغار
کوئ ہو تو چلے’استغاثہ ہے سردار
کوئ ہو تو چلے’کوئ ہو تو چلے
قافلہ سوگيا مقتل میں سر شام سبھی
رہ گیا قافلہ سالار کوئ ہو تو چلے
ایک بیٹا ہے جو گہوارہ سے اترا نہ کبھی
دوسرا بیٹا ہے بیمار کوئ ہو تو چلے
خود کو جھولے سے گرا دیتے ہیں جانے والے
کون ایسا ہے وفادار کوئ ہو تو چلے
رہ گیا نیزوں کے جنگل میں مسافر تنہا
یہ شہادت کے ہیں آثار کوئ ہو تو چلے
لمحہ لمحہ یہ صدا دیتی ہے عاشور کی شام
بیڑیاں ہوتی ہیں تیار کوئ ہو تو چلے
اللہ اللہ یہ لہو پہنے ہوۓ تنہائ
لٹ گئ کس کی یہ سرکار کوئ ہو تو چلے
یہ ہیں ناموس نبیۖ خیمے سے کیسے نکلیں
کیا کرے صاحب کردار کوئ ہو تو چلے
جانے یہ کون پس خیمہ ہے گریاں گریہ
ہے کوئ اس کا عزادار کوئ ہو تو چلے
اس طرح سے در زنداں پہ سکینہ روئ
ساتھ روۓ در و دیوار کوئ ہو تو چلے
کس کے لہجے میں علی بول رہے ہیں لوگوں
کون بولا سر دربار کوئ ہو تو چلے
بیڑیاں جس کی مصیبت پہ لہو روتی ہیں
کون آیا سر بازار کوئ ہو تو چلے
جو ہو اس فوج مخالف کا سپاہی نہ چلے
ہاں مگر حر سا طرفدار کوئ ہو تو چلے
یہ صدا آج بھی مقتل سے ہلال آتی ہے
کون حق کا ہے طلب گار کوئ ہو تو چلے
کوئ ہو تو چلے’خدایا
کوئ ہو تو چلے’خدایا

Home ,یا حسن یاحسن یاحسن

یا حسن یاحسن یاحسن
یا حسن یاحسن یاحسن
بے خطا مارا گيا سبط رسولۖ دوسرا و حسن سبز قبا
زہر سے ٹکڑے جگر خون سے کفن لال ہوا و حسن سبز قبا
خوں اگلتے ہوۓ بھائ کو بہن نے دیکھا اور تڑپ کر یہ کہا
تیری غربت پہ اے بھائ تیری زینب ہو فدا و حسن سبز قبا
ماں کے دکھ سے ابھی آزاد کہاں تھی زینب ہوگیا کیسا غضب
باپ زندہ نہ رہا بھائ سوۓ خلد گیا و حسن سبز قبا
کردیا زہر ہلا ہل نے جگر کے ٹکڑے اور قاسم کے لیے
کمسنی میں ہے یہ غم شام غریباں جیسا و حسن سبز قبا
گھر سے اک بار جو جنازہ نکل جاتا ہے کب وہ پھر آتا ہے
ایسا تابوت ہے یہ لوٹ کے جو گھر آیا و حسن سبز قبا
شہہ نے اس وقت جو عباس کو نہ روکا ہوتا حشر ہوجاتا بپا
تیر آتے نہ جنازے پہ تمہارے مولا و حسن سبز قبا
شہہ کو ریجان برادر کا جگر یاد آیا جب سر کرب و بلا
ٹکڑے قاسم کے اٹھاتے ہوۓ مولا نے کہا و حسن سبز قبا

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...