Friday, 5 September 2014

حضرت امام علی رضا علیہ السلام

                              
شبیہ زہرا جعفری

         حضرت امام علی رضا علیہ السلام

ولادت باسعادت

علماءومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ ۱۱/ ذی قعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیداہوئے ہیں(اعلام الوری ص ۱۸۲ ، جلاءالیعون ص ۲۸۰ ،روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۳ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷)
آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اورعلامہ محمدپارساتحریرفرماتے ہیں کہ جناب ام البنین کاکہناہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے مطلقا محسوس نہیں ہوا،میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل اورتمہیدکی آوازیں سناکرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیک دئے اوراپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف بلندکردیا آپ کے لب مبارک جنبش کرنے لگے ،ایسامعلوم ہوتاتھاکہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ، اسی اثناءمیں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اورمجھ سے ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو،پھرمیں نے مولودمسعودکوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعدآپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعدحجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے۔ ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرآئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے(فصل الخطاب وجلاءالعیون ص ۲۷۹)۔
نام ،کنیت،القاب
آپ کے والدماجدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعین رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موافق آپ کو”اسم علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد،میں کے تیسرے ”علی“ ہیں (اعلام الوری ص ۲۲۵ ،مطالب السﺅل ص ۲۸۲)۔
آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر،زکی،ولی،رضی،وصی تھے واشہرھاالرضاء اورمشہورترین لقب رضا تھا(نورالابصارص ۱۲۸ وتذکرة خواص الامة ص ۱۹۸)۔ 
لقب رضا کی وجہ
 امہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوعالم ،رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اورآئمہ طاہرین،نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوری ص ۱۸۲) علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا آپ نے فرمایاہرگزنہیں یہ لقب خداورسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے (جلاءالعیون ص ۲۷۹ ،روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۲)۔
آپ کی تربیت
آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔  
 اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل
آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرداری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدوردریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاو ¿ں پھیلاکرنہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اورچیزوں کاکیاذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے۔
آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔
 علمی کمال
مورخین کابیان ہے کہ آل محمدکے اس سلسلہ میں ہرفردحضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسی کوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ اسے کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کاجواب تحریرفرمایاتھا،اکھٹا کیاتواٹھارہ ہزارکی تعدادمیں تھے
 اقوال 
۱۔ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے بہترکوئی دودھ نہیں۔
۲۔ سرکہ بہترین سالن ہے جس کے گھرمیں سرکہ ہوگاوہ محتاج نہ ہوگا۔
۳۔ ہرانارمیں ایک دانہ جنت کاہوتاہے
۴۔ منقی صفراکودرست کرتاہے بلغم کودورکرتاہے پٹھوں کومضبوط کرتاہے نفس کوپاکیزہ بناتااوررنج وغم کودورکرتاہے
۵۔شہدمیں شفاہے ،اگرکوئی شہدہدیہ کرے توواپس نہ کرو۔
 ۶۔ گلاب جنت کے پھولوں کا سردار ہے۔
۷۔ بنفشہ کاتیل سرمیں لگاناچاہئے اس کی تاثیرگرمیوں میں سرداورسردیوں میںگرم ہوتی ہے۔
۸۔ جوزیتون کاتیل سرمیں لگائے یاکھائے اس کے پاس چالیس دن تک شیطان نہ آئے گا۔
۹۔ صلہ رحم اورپڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔
۱۰۔ اپنے بچوں کاساتویں دن ختنہ کردیاکرواس سے صحت ٹھیک ہوتی ہے اورجسم پرکوشت چڑھتاہے۔
۱۱۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنا دس روزوں کے برابرہے۔
۱۲۔ جوکسی عورت کامہرنہ دے یامزدورکی اجرت روکے یاکسی کوفروخت کردے وہ بخشانہ جائے گا۔
۱۳۔ شہدکھانے اوردودھ پینے سے حافظہ بڑھتاہے۔
۱۴۔ گوشت کھانے شفاہوتی ہے اورمرض دورہوتاہے۔
۱۵۔ کھانے کی ابتدانمک سے کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ستربیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جذام بھی ہے۔
۱۶۔ جودنیامیں زیادہ کھائے گاقیامت میں بھوکارہے گا۔
۱۷۔ مسورسترانبیاءکی پسندیدہ خوراک ہے اس سے دل نرم ہوتاہے اورآنسوبنتے ہیں۔ ۱۸۔ جوچالیس دن گوشت نہ کھائے گابداخلاق ہوجائےگا۔
۱۹۔ کھاناٹھنڈاکرکے کھاناچاہئے۔
 ۲۰۔ کھانے پیالے کے کنارے سے کھانا چاہئے۔
۲۱۔ عمرطول کے لیے اچھاکھانا،اچھی جوتی پہننااورقرض سے بچنا،کثرت جماع سے پرہیزکرنا مفیدہے۔
۲۲۔ اچھے اخلاق والاپیغمبراسلام کے ساتھ قیامت میں ہوگا۔
 ۲۳۔ جنت میں متقی اورحسن خلق والوں کی اورجہنم میں پیٹواور زناکاروں کی کثرت ہوگی۔
۲۴۔ امام حسین کے قاتل بخشے نہ جائیں گے ان کابدلہ خدالے گا۔
۲۵۔ حسن اورحسین علیہم السلام جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران سے بہترہیں۔
۲۶۔ اہل بیتؑ کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے ،نجات وہی پائے گا جواس پرسوارہوگا۔
۲۷۔ حضرت فاطمہؑ عرش کا پایاپکڑکرقیامت کے دن واقعہ کربلاکافیصلہ چاہیں گی اس دن ان کے ہاتھ میں امام حسین علیہ السلام کاخون بھراپیراہن ہوگا۔
۲۸۔ خداسے روزی صدقہ دیے کرمانگو۔

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...