Sunday, 30 November 2014

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد



 مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد
جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م

 عظیم سرور                                                                                                   
 مکہ سے خبر آئی کہ ہمارا دوست امان اللہ جو مکہ معظمہ میں 50 سال سے مقیم اور سعودی شہری تھا، انتقال کر گیا۔ امان اللہ ایک خوش قسمت شخص تھا کہ وہ ایک متبرک خوشبو کا شاہد تھا۔ اس کے انتقال کی خبر سنی تو بے اختیار مجھے خوشبو کا وہ واقعہ یاد آیا اور اس کا تذکرہ اس کالم میں کرنے کا خیال آیا کیونکہ ایک خوشبو نے امان اللہ کی زندگی بدل دی تھی۔
امان اللہ سے 80ء کی دہائی میں عارف الحق عارف کے توسط سے دوستی ہوئی تھی اور ایک عمرے کے موقع پر ہم امان اللہ کے گھر مہمان بھی رہے تھے۔ امان اللہ برمی نژاد پاکستانی تھے۔ جب سعودی حکومت نے برمیوں کو اپنے ملک کے ویزے دیئے تو امان اللہ اپنے والد کے ساتھ مکہ کے شہری بن گئے۔ چھوٹی سی عمر میں وہ ایک سنار کی دکان میں ملازم ہوگئے۔ مروہ پہاڑی کے پاس پرانے صرافہ بازار کی دکان میں وہ کام کیا کرتے تھے۔ میں نے یہ دکان دیکھی ہے لیکن اب یہ بازار حرم پاک کا حصہ بن گیا ہے۔

امان اللہ بتاتے ہیں کہ ان کی دکان کے سامنے کی دکان ایک بخاری کی تھی۔ وہ صبح سویرے وہاں تلاوت کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور دکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہاں رک جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے؟ امان اللہ دکان کے اس کونے میں گئے۔ وہاں کوئی غیر معمولی چیز نظر نہ آئی لیکن ایک عجیب مسرور کن خوشبو وہاں پھیلی ہوئی تھی۔ بوڑھے بخاری سنار نے پوچھا ”کیا دیکھا؟“ تو امان اللہ نے بتایا کہ دیکھا تو کچھ نہیں البتہ ایک بہت خوشبو وہاں ہے اور میں نے آج تک ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔ بخاری نے کہا… ”ہاں میں یہی جاننا چاہتا تھا کیونکہ کبھی کبھی دکان کا یہ کونا اس خوشبو سے مہک جاتا ہے میں سمجھتا تھا یہ میرا وہم ہے یا یہ میرے خیال کی خوشبو ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ میں کسی بچے کو وہاں بھیجوں اور دیکھوں کہ اس خوشبو کی حقیقت کیا ہے؟

امان اللہ، اس کے بعد اپنی دکان میں آکر بیٹھ گئے۔ یہ خوشبو ان کے ذہن سے گویا پورے جسم میں سما گئی تھی۔ ان کو بے پایاں خوشی کا انوکھا احساس ہو رہا تھا۔ وہ اسی خوشبو سے سرشار بیٹھے تھے کہ دکان کا عرب مالک آگیا اور اس نے کہا کہ ” بچہ! آج سے یہ دکان تیری ہے۔ اب میں یہاں نہیں آؤں گا۔ اس دکان میں اتنا حصہ تیرا، اتنا میرا اور مجھے میرا حصہ گھر پر پہنچا دیا کرنا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14,13 سال کا بچہ کروڑ پتی بن گیا۔ وہ ایک دم سے سونے کی دکان، 3کارخانوں اور منوں سونے کا مالک بن گیا تھا۔ سب لوگ اس کے نصیب پر رشک کرتے، کوئی اس کی ایمانداری کو اس کا سبب بتاتا، کوئی اسے عرب سنار کی دریا دلی کہتا۔ لیکن امان اللہ اسے اللہ کا فضل کہا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ یہ تبدیلی اس خوشبو کا فیضان ہے اور اس خوشبو کا شاہد بنانا بھی اللہ ہی کا فضل تھا۔

امان اللہ ہر سال زکوٰة کی مد میں کروڑوں روپے نکالتا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت دینی مدرسوں کے علاوہ برما کے مسلمانوں کو وہ ہر سال یہ رقم پہنچاتا تھا۔ اس کے ریکارڈ میں اداروں اور ضرورت مندوں کی طویل فہرست تھی۔

جب ہم مکہ کے پرانے صرافہ بازار میں اس کی دکان دیکھنے گئے تو وہاں توسیع حرم کے سلسلے میں کھدائی شروع تھی۔ دو سال بعد معلوم ہوا کہ یہ بازار ختم ہوگیا اور امان اللہ کو ایک دکان کے بدلے حرم پاک کے اطراف میں تین دکانیں الاٹ ہوگئیں۔ ہم نے یہ دکانیں بھی دیکھی تھیں۔

پرانے صرافہ بازار کی کھدائی ہوئی، دکانیں ٹوٹیں تو معلوم ہوا کہ بخاری سنار کی اس دکان کے اس کونے میں جہاں سے خوشبو اٹھتی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ کے گھر کا ایک ستون آرہا تھا۔ یہ وہی دکان تھی جہاں کئی سال پہلے امان اللہ نے خوشبو کا فیض حاصل کیا تھا۔ وہ اس مقام پر پہنچا۔ وہاں کھڑا ہوا اس ستون کو دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ امان اللہ جب بھی کسی کو یہ واقعہ سناتا تو اس کی آواز بھرا جاتی تھی۔ میں امان اللہ کو خوش نصیب شخص کہا کرتا ہوں۔ جو کچھ اس کو ملا وہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ کرم کے فیصلوں کے حامل ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے پوچھنے والا پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ تو وہ خوشبو کیسی تھی؟ وہ کہتا تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ خوشبو کیسی تھی، لیکن وہ میری روح میں رچی ہوئی ہے، میرے دل میں بسی ہوئی ہے۔ سچ ہے۔ کون دلاں دیاں جانے ہو....



بہ شکریہ روزنامہ جنگ


Thursday, 27 November 2014

Home, بی بی زہرا یہ دعا ہے آپ کے دربار میں


 

يا فاطمہ ام ابيھا بنت پیعمبرۖ خیرالنساء
یا زہــــــرا یا زہــــــرا
تو ہے صدیقہ تو طاہرہ اور تو ہی شفیع روز جزا
اے میری بی بی وقت مدد ہے ہر ماتمی کے دل کی صدا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
دست دعا کو جب بھی اٹھایا
مانگا ہے تیری چادر کا سایہ
وقت مصیبت میں ہر حسینی
بس نام تیرا ہونٹوں پہ لایا
اے میری بی بی تنگ دست ہوں میں
یہ کہہ کے دامن پھیلا دیا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
وہ بی بی جس کی ہے گود خالی
چوکھٹ پہ تیری ہے وہ سوالی
مجھ کو بھی دے دے اصغر کا صدقہ
میں نے تیرے در سے لو لگالی
اے میری بی بی جن گودیوں میں
اولاد ہے وہ تیری عطا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو مائيں بہنیں بے آسرا ہوں
فرش عزا پر محو بکاہ ہوں
تو ان کے پردوں کی لاج رکھیو
جو تیری زینب کی ذاکرہ ہوں
اے میری بی بی زندہ رہے وہ
بھائ جو بہنوں کا آسرا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو طفل رو کر پڑھتے ہیں نوحہ
ہر آٹھویں کو بنتے ہیں سقہ
ہر روشنی کی ہیں یہ ضمانت
یہ ہیں چراغ بزم عزاء
اے میری بی بی بجھنے نہ پائيں
عون و محمد کا واسطہ ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
جو اپنے بیٹوں کا بھول کر غم
کرتی ہوں تیرے اکبر کا ماتم
ان ماؤں کو تو دے صبر بی بی
وہ پھر نہ دیکھیں اولاد کا غم
اے میری بی بی اس ماں کو کوئ
غم نہ ہو جس کو یہ غم ملا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
ہے یاد اب تک پر درد منظر
پیاسے کی گردن ظالم کا خنجر
ہم تیرے پیاسے بیٹے کا صدقہ
یوں مانگتے ہیں فرش عزا پر
اے میری بی بی آباد رکھنا
وہ گھر کہ جس میں فرش عزا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
شبیر کی وہ مظلوم دختر
زندان سے جو نہ جا سکی گھر
صدقے میں اس کے ہم پر کرم کر
بے جرم قیدی کہتے ہیں روکر
اے میری بی بی اب یہ اسیری
ہو ختم عابد کا واسطہ ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
عرفان و مظہر یہ چاہتے ہیں
مل جاۓ ہم کو بس یہ سعادت
جو آخری ہے حجت خدا کی
ہو جاۓ ہم کو اس کی زیارت
اے میری بی بی یہ بات وہ ہے
جو ہر حسینی کی التجا ہے
بی بی زہرا یہ دعا ہے
آپ کے دربار میں
بی بی زہرا یہ دعا ہے
التماس :
ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود 

حسین جعفری کے لے

التماس : ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود حسین جعفری کے لے

التماس :
ایک سورہ فاتحہ اور دس بار درود میرے والد سید مقصود حسین جعفری کے لے

Home, سلام آخر سلام یتیموں پہ سوگواروں کا


 سلام آخر
سلام یتیموں پہ سوگواروں کا
غریب دیتے ہیں پرسہ تمہارے پیاروں کا
سلام ان پر جنہیں شرم کھاۓ جاتی ہے
کھلے سروں پہ اسیری کی خاک آتی ہے
سلام ان پر جو زحمت کش سلاسل ہے
مصیبتوں میں امامت کی پہلی منزل ہے
سلام بھیجتے ہیں اپنی شہزادی پر
کہ جس کو سونپ گۓ مرتے وقت گھر سرور
مسافرت نے جسے بے بسی یہ دکھلائ
نثار کردیے بچے نہ بچ سکا بھائ
اسیر ہو کے جسے شامیوں کے نرغے میں
حسینیت ہے سکھانا علی کے لہجے میں
سـکـینـہ بی بی تمہارے غلام حاضر ہیں
بجھے جو پیاس تو اشکوں کے جام حاضر ہیں
یہ سن یہ حشر یہ صدمے نۓ نۓ بی بی
کہاں پہ بیٹھی ہو خیمے تو جل گۓ بی بی
پہاڑ رات بڑی دیر ہے سویرے میں
کہاں ہو شام غریباں کے گھپ اندھیرے میں
زمین ہے گرم یتیمی کی سختیاں بی بی
وہ سینہ کہ جس پہ سوتی تھی اب کہاں بی بی
جناب مادر بیشیر کو بھی سب کا سلام
عجیب وقت ہے کیا دیں تسّـلیوں کا پیام
ابھی کلیجے میں آگ سی لگی ہوگی
ابھی تو گود کی گرمی نہ کم ہوئ ہوگی
نہیں اندھیرے میں کچھ سوجھتا کہاں ڈھونڈیں
تمہارا چاند کہاں چھپ گيا کہاں ڈھونڈیں
نہ اس طرح کوئ کھیتی ہری بھری اجڑی
تمہاری مانگ بھی اجڑی ہے کوکھ بھی اجڑی
نہیں لعینوں میں انساں کوئ خداحافظ
درندے اور یہ بے وارثی خداحافظ
شہید کے حق اے درود و سلام اے پیغمبر
سلام سید لولاک کے لٹے گھر پر
سلام محسن اسلام اسد اللہ کو
سلام تم پر شہیدوں کے بے کفن لاشوں
سلام تم پر رسول و بتول کے پیاروں
سلام مہر شہادت کے گرد سیاروں
بچے تو اگلے برس ہم ہیں اور یہ غم پھر ہے
جو چلے بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہے

Home, چلے آؤ اے زواروں چلے آؤ میری آواز پہ لبیک پکارے چلے آؤ لـــبیک یـــاحــسـین


سلام یاحسین(ع)۔
بس یاحسین(ع)۔
یاعلی یاحسین(ع)۔
جہاں حسین وہاں لاالہ اللہ
ہمارے ہیں یاحسین(ع)۔
ابدواللہ یازہرا(س)۔
لبیک یاحسین(ع)۔
مولا لبیک، لـبـیـک یـــا ابـــاعــبـدالــلہ
اے میرے مولا
شاہ کربلا
بخشش کا شفا کا
ہیں آپ وسیلہ
روضہ پہ بلالو
زوّار بنادو
قسمت کو جگادو
اے شاہ شہیداں
اعجاز دکھادو
مولا اب ہم کو صدا دو
مولا اب۔۔
چلے آؤ، چلے آؤ، چلے آؤ
چلے آؤ اے زواروں چلے آؤ
میری آواز پہ لبیک پکارے چلے آؤ
لـــبیک یـــاحــسـین
نام تم سب کے میرے در پہ لکھے ہیں آؤ
اپنے ماں باپ کو اس پاک سفر میں لاؤ
اپنے بچوں کو بھی احرام عزا پہناؤ
میرے زواروں میری کرب و بلا آجاؤ
عہد کرتا ہوں عزاداروں شفاعت کے لیے
آؤ زواروں چلے آؤ زیارت کے لیے
چلے آؤ۔۔۔
خوش رہو اے میری روداد سنانے والوں
اپنی خوشیوں میں میرا سوگ منانے والوں
سارے عالم میں میرا فرش بچھانے والوں
گرمی سردی میں میری قبر پہ آنے والوں
مجھ کو معلوم ہے تم لوگوں کی حاجت آؤ
تم پہ ہوجاۓ گی اللہ کی عنایت آؤ
چلے آؤ۔۔۔
جانب کرب و بلا جب کوئی بڑھتا ہے قدم
ہر قدم پہ میرے زوار پہ ہوتا ہے کرم
سایہ کرتا ہوا عباس کا چلتا ہے علم
متنظر رہتی ہیں زہرا میرے بابا کی قسم
میرے زواروں میرے درد کے مارو آؤ
میری ماں فاطمہ زہرا(س) کے دلاروں آؤ
چلے آؤ۔۔۔
تم جو کہتے ہو ابد واللہ ماننسا حسین
امّاں زہرا بھی یہی کرتی ہیں رو رو کر بین
میری مظلومی پہ روۓ ہيں شہہ بدروحنین
میرے بابا بھی ہیں اب تک میرے عم میں بے چین
تم نہیں بھولے تو میں بھی نہیں بھولا تم کو
یاد چلتے ہوۓ خنجر میں بھی رکھا تم کو
چلے آؤ۔۔۔
تم جو لہراتے ہو ہاتھوں میں اٹھاۓ پرچم
تم کو معلوم ہے ہوجاتا ہے تازہ میرا غم
یاد آتا ہے مجھے خون میں ڈوبا وہ علم
جس کے جھک جانے سے ٹوٹا میرے بچوں پہ ستم
میری عباس کی جاگیر سجانے آؤ
حاضری روضہ عباس پہ کھانے آؤ
چلے آؤ۔۔۔
میرے زواروں سنو
یہ زمیں کرب و بلا
اس سے پہلے تو یہاں
کوئی بھی بس نہ سکا
یہ زمین کرب و بلا تو کرب کا مجموعہ ہے
حضرت آدم(ع) و حوّا(ع) کا یہی گریہ ہے
شیر نے حضرت عیسی(ع) کو یہیں روکا ہے
اور پھر تخت سلیمان(ع) یہیں لرزہ ہے
اس زمیں پر ہی ابراہیم(ع) کا رہوار دھنسا
پاۓ موسی(ع) میں لگی شوٹ لہو بہنے لگا
ذبیح اللہ(ع) کے رہوار رہے پیاسے یہاں
کشتی نوح سے ٹکرایا یہیں پر طوفاں
اس زمیں پر تو پریشاں ہوا ہر انساں
میرے بابا بھی یہاں کرتے رہے آہ و فغاں
میری ہجرت تھی مدینے سے ہدایت کے لیے
یہ زمیں میں نے خریدی تھی شہادت کے لیے
چلے آؤ اے زوّاروں چلے آؤ۔۔
دو محرم کو یہاں میرا رہوار رکا
ساتھ کنبہ تھا میرا میں اکیلا بھی نہ تھا
آؤ زواروں میرے ساتھ چلو
تھام کر دل ‘ میرا مقتل دیکھو
یہ مقام علی اکبر ہے جہاں
میرے بچے پہ جہاں روئی اذاں
یہ مقام علی اصغر ہے جہاں
آج بھی بیٹھی ہوئی روتی ہے ماں
یہ جگہ وہ ہے میرے زواروں
لاش قاسم ہوئی پامال ادھر
دو مقامات جو آتے ہیں نظر
کٹے عباس کے بازو تھے جدھر
ہیں ذرا دور جو دو دل کے قرار
ہیں میرے عون و محمد کے مزار
عصر عاشور سے تربیت کے قریں
میرا حر اور میرا لشکر ہے یہیں
اور یہ تلّہ زینبیہ ہے
یہیں زینب نے یہ منظر دیکھا
مجھ پہ چلتا ہوا خنجر دیکھا
میرا عاشور یا چہلم ہو میرا
کربلا آتا ہے کنبہ میرا
پھر سکینہ جو یہاں آتی ہے
میری تربت سے لپٹ جاتی ہے
یاحسین، یاحسین، یاحسین
میں ہوں حسین – حسین حسین
عبدخدا – حسین حسین
خون نبی(ص) – حسین حسین
خون علی(ع) – حسین حسین
خون حسن(ع) – حسین حسین
زہرا(س) – حسین حسین
شاہ عرب – حسین حسین
میں ہوں الغطا – حسین حسین
میں ہوں شفا – حسین حسین
اہل عزا – حسین حسین
روز جزا – حسین حسین
دیں گے تجھے – حسین حسین
و___ و کرم – حسین حسین
باغ ارم – حسین حسین
میں ہوں حسین – حسین حسین
تم پہ سلامِ کربلا ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ شہداء ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ سیدہ(س) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ مرتضی(ع) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلامِ مصطفی(ص) ، ماتمی – حسین حسین
تم پہ سلام باوفا ، ماتمی – حسین حسین
تم ہو دل زینبِ کبری کا چین – حسین حسین
کرتے رہو ‘ کہتے رہو یاحسین – حسین حسین
سیدنا ‘ سیدنا یا حسین – حسین حسین
يــــــا حــــــــســـیـــن – علیہ سلام

Home, ھل من ناصر ینصرنا کوئ ہو تو چلے’خدایا


خدایا خدایا خدایا خدایا
ھل من ناصر ینصرنا
کوئ ہو تو چلے’خدایا
کوئ ہو تو چلے’استغاثہ ہے سردار
کوئ ہو تو چلے’ایک پیاسے پہ ہے یلغار
کوئ ہو تو چلے’استغاثہ ہے سردار
کوئ ہو تو چلے’کوئ ہو تو چلے
قافلہ سوگيا مقتل میں سر شام سبھی
رہ گیا قافلہ سالار کوئ ہو تو چلے
ایک بیٹا ہے جو گہوارہ سے اترا نہ کبھی
دوسرا بیٹا ہے بیمار کوئ ہو تو چلے
خود کو جھولے سے گرا دیتے ہیں جانے والے
کون ایسا ہے وفادار کوئ ہو تو چلے
رہ گیا نیزوں کے جنگل میں مسافر تنہا
یہ شہادت کے ہیں آثار کوئ ہو تو چلے
لمحہ لمحہ یہ صدا دیتی ہے عاشور کی شام
بیڑیاں ہوتی ہیں تیار کوئ ہو تو چلے
اللہ اللہ یہ لہو پہنے ہوۓ تنہائ
لٹ گئ کس کی یہ سرکار کوئ ہو تو چلے
یہ ہیں ناموس نبیۖ خیمے سے کیسے نکلیں
کیا کرے صاحب کردار کوئ ہو تو چلے
جانے یہ کون پس خیمہ ہے گریاں گریہ
ہے کوئ اس کا عزادار کوئ ہو تو چلے
اس طرح سے در زنداں پہ سکینہ روئ
ساتھ روۓ در و دیوار کوئ ہو تو چلے
کس کے لہجے میں علی بول رہے ہیں لوگوں
کون بولا سر دربار کوئ ہو تو چلے
بیڑیاں جس کی مصیبت پہ لہو روتی ہیں
کون آیا سر بازار کوئ ہو تو چلے
جو ہو اس فوج مخالف کا سپاہی نہ چلے
ہاں مگر حر سا طرفدار کوئ ہو تو چلے
یہ صدا آج بھی مقتل سے ہلال آتی ہے
کون حق کا ہے طلب گار کوئ ہو تو چلے
کوئ ہو تو چلے’خدایا
کوئ ہو تو چلے’خدایا

Home ,یا حسن یاحسن یاحسن

یا حسن یاحسن یاحسن
یا حسن یاحسن یاحسن
بے خطا مارا گيا سبط رسولۖ دوسرا و حسن سبز قبا
زہر سے ٹکڑے جگر خون سے کفن لال ہوا و حسن سبز قبا
خوں اگلتے ہوۓ بھائ کو بہن نے دیکھا اور تڑپ کر یہ کہا
تیری غربت پہ اے بھائ تیری زینب ہو فدا و حسن سبز قبا
ماں کے دکھ سے ابھی آزاد کہاں تھی زینب ہوگیا کیسا غضب
باپ زندہ نہ رہا بھائ سوۓ خلد گیا و حسن سبز قبا
کردیا زہر ہلا ہل نے جگر کے ٹکڑے اور قاسم کے لیے
کمسنی میں ہے یہ غم شام غریباں جیسا و حسن سبز قبا
گھر سے اک بار جو جنازہ نکل جاتا ہے کب وہ پھر آتا ہے
ایسا تابوت ہے یہ لوٹ کے جو گھر آیا و حسن سبز قبا
شہہ نے اس وقت جو عباس کو نہ روکا ہوتا حشر ہوجاتا بپا
تیر آتے نہ جنازے پہ تمہارے مولا و حسن سبز قبا
شہہ کو ریجان برادر کا جگر یاد آیا جب سر کرب و بلا
ٹکڑے قاسم کے اٹھاتے ہوۓ مولا نے کہا و حسن سبز قبا

Home, اے میرے بابا جان ہورہی ہے اذان سر چھپاؤں کہاں


 
اے میرے بابا جان ہورہی ہے اذان سر چھپاؤں کہاں

اس وقت جب کہ زینب دربار میں گئ تھی
قاری نمازیوں سے محفل سجی ہوئ تھی
ظالم یہ پوچھتا تھا غازی تیرا کہاں ہے
بالوں سے منہ چھپاۓ زینب یہ کہہ رہی تھی
اے میرے بابا جان ہورہی ہے اذان سر چھپاؤں کہاں
مجمع عام میں بے وطن بے امان آگیا کارواں
میں بھی ہوں مرضیہ بنت خیرالنساء
میرے لہجے میں ہے بابا تیری ادا
نام زینب میرا تو نے جو رکھ دیا
دے دی اپنی زباں
بابا جاں میں ردا مانگتی رہ گئ
بام و در سج گۓ جیتے جی مر گئ
حلقہ شام میں نام سن کر میرا
مرگیا ناتواں
ہاتھ کانوں پہ ہیں نیل گالوں پہ ہیں
اور نشاں جو سکینہ کے شانوں پہ ہیں
ہر نشاں سے یہی آرہی ہے صدا
بابا جان بابا جان
شام عاشور سے شام و کوفہ تلک
میں نے مانگا نہیں ہے خراج فدک
میری چادر سے ہے میری ماں کا سکوں
سن لے ظالم جہاں
بابا جاں یہ تیرا آخری تھا بیاں
تیری چادر بچاۓ گا غازی جواں
مرگیا باوفا چھن گئ ہے ردا
کہتی ہیں بیبیاں
عباس عباس عباس
رکھ نہ پایا میرے باوفا کا وہ سر
نوک نیزہ سے آنے لگا خاک پر
بہن کو در بدر دیکھ کر ننگے سر
سہہ نہ پایا جواں
کل تھی ماں آج میں بھی ہوں دربار میں
مثل زہرا ہوں کھڑی میں اغیار میں
اس طرف ہیں شقی اس طرف رہ گئ
بے پدر بیٹیاں
اس خطبہ دیا میں نے دربار میں
لکھ رہا ہے جو یاور تیرے پیار میں
لہجہ حیدری ہر اذاں کے لیے
ہے صداۓ اذاں
اے میرے بابا جان ہورہی ہے اذان سر چھپاؤں کہاں

Home

جانے والے کربلا کے کربلا لے چل مجھے
روضہ شبیر پر دوں گا دعا لے چل مجھے

ہے جہاں گنج شہیداں ہے جہاں نہر فرات
جس جگہ سید میرا پیاسا رہا لے چل مجھے

جس جگہ جاگی تھی قسمت حر کی وہ دیکھوں گا میں
عاصیوں پر کیسے ہوتی ہے عطا لے چل مجھے

اس قدر نادار ہوں زاد سفر کچھ بھی نہیں
دوش پر اپنے بٹھا کر اے ہوا لے چل مجھے

جس جگہ عباس کے بازو قلم ہوکے گرے
اس جگہ میں بھی کروں ماتم ذرا لے چل مجھے

دل الجھ کر آگیا برچھی میں اکبر کا جہاں
دل وہاں میں بھی کروں اپنا فدا لے چل مجھے

جل گئے شام غریباں میں جہاں خیمے تمام
جس جگہ ننھا سا اک جھولا جلا لے چل مجھے

ہاۓ وہ مقتل جہاں بالی سکینہ رات میں
ڈھونڈتی پھرتی تھی سینہ باپ کا لے چل مجھے

سرور و ریحان ہر مجلس میں کرتے ہیں دعا
حق وہیں نوحوں کا اب ہوگا ادا لے چل مجھے

جانے والے کربلا کے کربلا لے چل مجھے
روضہ شبیر پر دوں گا دعا لے چل مجھے

جانے والے کربلا کے کربلا لے چل مجھے
جانے والے کربلا کے کربلا لے چل مجھے

Homeپہلو بھی شکستہ ہے





پہلو بھی شکستہ ہے تُربت بھی شکستہ ہے
پہلو بھی شکستہ ہے تُربت بھی شکستہ ہے
کیا حال یہ اُمت نے زہرا کا بنایا ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

خاتون کوئی غم سے یوں چُور نہیں دیکھی
ایسی کوئی دنیا میں مستور نہیں دیکھی
اٹھارہ برس میں ہی لگتی جو ضعیفہ ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

دربار میں ظالم نے کی ایسی پذیرائی
کس طرح سے توں بی بی پھرلوٹ کے گھر آئی
بالوں کی سفیدی نے سب حال سُنایا ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

تُو روتی رہی گھر میں حیدر سے بھی چھُپ چھُپ کے
عصمت کی طرح دکھ بھی پردے میں رہے تیرے
کچھ درد تیرے بی بی بس جانتی فضہ ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

دو ایسے جنازے ہیں تاریکمیں جو اُٹھے
بس گھر کے ہی لوگوں نے دونوں کو دیئے کاندھے
اک فاطمہ زہرا ہیں اک بالی سکینہ ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

مرہم تیرے زخموں کا بی بی نہ ملا اب تک
اولادِ اُمیہ کی باقی ہے جفا اب تک
رونے پہ بھی پہرہ تھا تُربت پہ بھی پہرہ ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

مسمار تیرا روضہ اُمت نے کیا جب سے
بابا تیرا رہتا ہے تُربت پہ تیری تب سے
کب گُنبدِ خضرا میں بابا تیرا رہتا ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

مہدی سے کوئی پوچھے کیا اُس پہ گزرتی ہے
آواز بقیہ سے جب رونے کی آتی ہے
آنکھوں سے لہو رو کر وہ بھی یہ ہی کہتا ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

تصویر حقیقت کی خوابوں کو بنا دیجے
اے بی بی تکلم کو تعبیر دیکھا دیجے
ماتم تیری تُربت پہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے
پہلو بھی۔۔۔۔۔

Featured post

home,مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد

  مکہ معظمہ کی خوشبو کا شاہد جمعہ 05 رمضان 1432هـ - 05 اگست 2011م  عظیم سرور                                                 ...