عظیم سرور
مکہ سے خبر آئی کہ ہمارا دوست امان اللہ جو مکہ معظمہ میں 50 سال سے مقیم اور سعودی شہری تھا، انتقال کر گیا۔ امان اللہ ایک خوش قسمت شخص تھا کہ وہ ایک متبرک خوشبو کا شاہد تھا۔ اس کے انتقال کی خبر سنی تو بے اختیار مجھے خوشبو کا وہ واقعہ یاد آیا اور اس کا تذکرہ اس کالم میں کرنے کا خیال آیا کیونکہ ایک خوشبو نے امان اللہ کی زندگی بدل دی تھی۔
امان اللہ سے 80ء کی دہائی میں عارف الحق عارف کے توسط سے دوستی ہوئی تھی اور ایک عمرے کے موقع پر ہم امان اللہ کے گھر مہمان بھی رہے تھے۔ امان اللہ برمی نژاد پاکستانی تھے۔ جب سعودی حکومت نے برمیوں کو اپنے ملک کے ویزے دیئے تو امان اللہ اپنے والد کے ساتھ مکہ کے شہری بن گئے۔ چھوٹی سی عمر میں وہ ایک سنار کی دکان میں ملازم ہوگئے۔ مروہ پہاڑی کے پاس پرانے صرافہ بازار کی دکان میں وہ کام کیا کرتے تھے۔ میں نے یہ دکان دیکھی ہے لیکن اب یہ بازار حرم پاک کا حصہ بن گیا ہے۔
امان اللہ بتاتے ہیں کہ ان کی دکان کے سامنے کی دکان ایک بخاری کی تھی۔ وہ صبح سویرے وہاں تلاوت کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور دکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہاں رک جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے؟ امان اللہ دکان کے اس کونے میں گئے۔ وہاں کوئی غیر معمولی چیز نظر نہ آئی لیکن ایک عجیب مسرور کن خوشبو وہاں پھیلی ہوئی تھی۔ بوڑھے بخاری سنار نے پوچھا ”کیا دیکھا؟“ تو امان اللہ نے بتایا کہ دیکھا تو کچھ نہیں البتہ ایک بہت خوشبو وہاں ہے اور میں نے آج تک ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔ بخاری نے کہا… ”ہاں میں یہی جاننا چاہتا تھا کیونکہ کبھی کبھی دکان کا یہ کونا اس خوشبو سے مہک جاتا ہے میں سمجھتا تھا یہ میرا وہم ہے یا یہ میرے خیال کی خوشبو ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ میں کسی بچے کو وہاں بھیجوں اور دیکھوں کہ اس خوشبو کی حقیقت کیا ہے؟
امان اللہ، اس کے بعد اپنی دکان میں آکر بیٹھ گئے۔ یہ خوشبو ان کے ذہن سے گویا پورے جسم میں سما گئی تھی۔ ان کو بے پایاں خوشی کا انوکھا احساس ہو رہا تھا۔ وہ اسی خوشبو سے سرشار بیٹھے تھے کہ دکان کا عرب مالک آگیا اور اس نے کہا کہ ” بچہ! آج سے یہ دکان تیری ہے۔ اب میں یہاں نہیں آؤں گا۔ اس دکان میں اتنا حصہ تیرا، اتنا میرا اور مجھے میرا حصہ گھر پر پہنچا دیا کرنا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14,13 سال کا بچہ کروڑ پتی بن گیا۔ وہ ایک دم سے سونے کی دکان، 3کارخانوں اور منوں سونے کا مالک بن گیا تھا۔ سب لوگ اس کے نصیب پر رشک کرتے، کوئی اس کی ایمانداری کو اس کا سبب بتاتا، کوئی اسے عرب سنار کی دریا دلی کہتا۔ لیکن امان اللہ اسے اللہ کا فضل کہا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ یہ تبدیلی اس خوشبو کا فیضان ہے اور اس خوشبو کا شاہد بنانا بھی اللہ ہی کا فضل تھا۔
امان اللہ ہر سال زکوٰة کی مد میں کروڑوں روپے نکالتا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت دینی مدرسوں کے علاوہ برما کے مسلمانوں کو وہ ہر سال یہ رقم پہنچاتا تھا۔ اس کے ریکارڈ میں اداروں اور ضرورت مندوں کی طویل فہرست تھی۔
جب ہم مکہ کے پرانے صرافہ بازار میں اس کی دکان دیکھنے گئے تو وہاں توسیع حرم کے سلسلے میں کھدائی شروع تھی۔ دو سال بعد معلوم ہوا کہ یہ بازار ختم ہوگیا اور امان اللہ کو ایک دکان کے بدلے حرم پاک کے اطراف میں تین دکانیں الاٹ ہوگئیں۔ ہم نے یہ دکانیں بھی دیکھی تھیں۔
پرانے صرافہ بازار کی کھدائی ہوئی، دکانیں ٹوٹیں تو معلوم ہوا کہ بخاری سنار کی اس دکان کے اس کونے میں جہاں سے خوشبو اٹھتی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ کے گھر کا ایک ستون آرہا تھا۔ یہ وہی دکان تھی جہاں کئی سال پہلے امان اللہ نے خوشبو کا فیض حاصل کیا تھا۔ وہ اس مقام پر پہنچا۔ وہاں کھڑا ہوا اس ستون کو دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ امان اللہ جب بھی کسی کو یہ واقعہ سناتا تو اس کی آواز بھرا جاتی تھی۔ میں امان اللہ کو خوش نصیب شخص کہا کرتا ہوں۔ جو کچھ اس کو ملا وہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ کرم کے فیصلوں کے حامل ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے پوچھنے والا پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ تو وہ خوشبو کیسی تھی؟ وہ کہتا تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ خوشبو کیسی تھی، لیکن وہ میری روح میں رچی ہوئی ہے، میرے دل میں بسی ہوئی ہے۔ سچ ہے۔ کون دلاں دیاں جانے ہو....
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
مکہ سے خبر آئی کہ ہمارا دوست امان اللہ جو مکہ معظمہ میں 50 سال سے مقیم اور سعودی شہری تھا، انتقال کر گیا۔ امان اللہ ایک خوش قسمت شخص تھا کہ وہ ایک متبرک خوشبو کا شاہد تھا۔ اس کے انتقال کی خبر سنی تو بے اختیار مجھے خوشبو کا وہ واقعہ یاد آیا اور اس کا تذکرہ اس کالم میں کرنے کا خیال آیا کیونکہ ایک خوشبو نے امان اللہ کی زندگی بدل دی تھی۔
امان اللہ سے 80ء کی دہائی میں عارف الحق عارف کے توسط سے دوستی ہوئی تھی اور ایک عمرے کے موقع پر ہم امان اللہ کے گھر مہمان بھی رہے تھے۔ امان اللہ برمی نژاد پاکستانی تھے۔ جب سعودی حکومت نے برمیوں کو اپنے ملک کے ویزے دیئے تو امان اللہ اپنے والد کے ساتھ مکہ کے شہری بن گئے۔ چھوٹی سی عمر میں وہ ایک سنار کی دکان میں ملازم ہوگئے۔ مروہ پہاڑی کے پاس پرانے صرافہ بازار کی دکان میں وہ کام کیا کرتے تھے۔ میں نے یہ دکان دیکھی ہے لیکن اب یہ بازار حرم پاک کا حصہ بن گیا ہے۔
امان اللہ بتاتے ہیں کہ ان کی دکان کے سامنے کی دکان ایک بخاری کی تھی۔ وہ صبح سویرے وہاں تلاوت کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور دکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہاں رک جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے؟ امان اللہ دکان کے اس کونے میں گئے۔ وہاں کوئی غیر معمولی چیز نظر نہ آئی لیکن ایک عجیب مسرور کن خوشبو وہاں پھیلی ہوئی تھی۔ بوڑھے بخاری سنار نے پوچھا ”کیا دیکھا؟“ تو امان اللہ نے بتایا کہ دیکھا تو کچھ نہیں البتہ ایک بہت خوشبو وہاں ہے اور میں نے آج تک ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔ بخاری نے کہا… ”ہاں میں یہی جاننا چاہتا تھا کیونکہ کبھی کبھی دکان کا یہ کونا اس خوشبو سے مہک جاتا ہے میں سمجھتا تھا یہ میرا وہم ہے یا یہ میرے خیال کی خوشبو ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ میں کسی بچے کو وہاں بھیجوں اور دیکھوں کہ اس خوشبو کی حقیقت کیا ہے؟
امان اللہ، اس کے بعد اپنی دکان میں آکر بیٹھ گئے۔ یہ خوشبو ان کے ذہن سے گویا پورے جسم میں سما گئی تھی۔ ان کو بے پایاں خوشی کا انوکھا احساس ہو رہا تھا۔ وہ اسی خوشبو سے سرشار بیٹھے تھے کہ دکان کا عرب مالک آگیا اور اس نے کہا کہ ” بچہ! آج سے یہ دکان تیری ہے۔ اب میں یہاں نہیں آؤں گا۔ اس دکان میں اتنا حصہ تیرا، اتنا میرا اور مجھے میرا حصہ گھر پر پہنچا دیا کرنا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14,13 سال کا بچہ کروڑ پتی بن گیا۔ وہ ایک دم سے سونے کی دکان، 3کارخانوں اور منوں سونے کا مالک بن گیا تھا۔ سب لوگ اس کے نصیب پر رشک کرتے، کوئی اس کی ایمانداری کو اس کا سبب بتاتا، کوئی اسے عرب سنار کی دریا دلی کہتا۔ لیکن امان اللہ اسے اللہ کا فضل کہا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ یہ تبدیلی اس خوشبو کا فیضان ہے اور اس خوشبو کا شاہد بنانا بھی اللہ ہی کا فضل تھا۔
امان اللہ ہر سال زکوٰة کی مد میں کروڑوں روپے نکالتا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت دینی مدرسوں کے علاوہ برما کے مسلمانوں کو وہ ہر سال یہ رقم پہنچاتا تھا۔ اس کے ریکارڈ میں اداروں اور ضرورت مندوں کی طویل فہرست تھی۔
جب ہم مکہ کے پرانے صرافہ بازار میں اس کی دکان دیکھنے گئے تو وہاں توسیع حرم کے سلسلے میں کھدائی شروع تھی۔ دو سال بعد معلوم ہوا کہ یہ بازار ختم ہوگیا اور امان اللہ کو ایک دکان کے بدلے حرم پاک کے اطراف میں تین دکانیں الاٹ ہوگئیں۔ ہم نے یہ دکانیں بھی دیکھی تھیں۔
پرانے صرافہ بازار کی کھدائی ہوئی، دکانیں ٹوٹیں تو معلوم ہوا کہ بخاری سنار کی اس دکان کے اس کونے میں جہاں سے خوشبو اٹھتی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ کے گھر کا ایک ستون آرہا تھا۔ یہ وہی دکان تھی جہاں کئی سال پہلے امان اللہ نے خوشبو کا فیض حاصل کیا تھا۔ وہ اس مقام پر پہنچا۔ وہاں کھڑا ہوا اس ستون کو دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ امان اللہ جب بھی کسی کو یہ واقعہ سناتا تو اس کی آواز بھرا جاتی تھی۔ میں امان اللہ کو خوش نصیب شخص کہا کرتا ہوں۔ جو کچھ اس کو ملا وہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ کرم کے فیصلوں کے حامل ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے پوچھنے والا پوچھا کرتے تھے کہ بتاؤ تو وہ خوشبو کیسی تھی؟ وہ کہتا تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ خوشبو کیسی تھی، لیکن وہ میری روح میں رچی ہوئی ہے، میرے دل میں بسی ہوئی ہے۔ سچ ہے۔ کون دلاں دیاں جانے ہو....
بہ شکریہ روزنامہ جنگ