وہ کربلا و شام غریباں وہ تیرگی
وہ زینب حزیں وہ حفاظت خیام کی
آیا وہ اک سوار قریب خیام شاہ
بیٹی علی کی غیض میں سوئے فرس بڑھی
الٹی نقاب چہرے سے اپنے سوار نے
پیش نگاہ زینب مظلوم تھے علی
ہر چند صا برہ تھی بہت بنت فاطمہ
بے ساختہ لبوں پہ فریاد آگئی
زینب نے کہا باپ کے قدموں سے لپٹ کر
اب آئے ہو بابا
جب لٹ گیا پردیس میں اماں کا بھرا گھر
اب آئے ہو بابا
بابا اگر آنا ہی تھا خالق کی رضا سے
اس وقت نہ آئے
جب خاک پہ دم توڑ رہا تھا میرا اکبر
اب آئے ہو بابا
کٹ کٹ کے گرے نہر پہ جب بازوئے عباس
اور کوئی نہ تھا پاس
اس وقت صدا آپ کو دیتا تھا دلاور
اب آئے ہو بابا
جب فرش زمین بام و فلک لرزہ فشاں تھے
اس وقت کہاں تھے
جب باپ کے چلو میں تھا خون علی اصغر
اب آئے ہو بابا
جب بھائی کا سر کٹتا تھا میں دیکھ رہی تھی
حضرت کو صدا دی
سر کھولے ہوئی روتی تھی میں خیمے کے در پر
اب آئے ہو بابا
جب لوگ بچا لے گئے لاشے شہدائ کے
حق اپنا جتا کر
بس اک تن شبیر تھا پامالی کی زد پر
اب آئے ہو بابا
جب بالی سکینہ کے گوہر چھینے گئے تھے
لگتے تھے طمانچے
حسرت دے مجھے دیکھتی تھی بانوئے مضطر
اب آئے ہو بابا
اک رات کا مہماں ہیں پھر قید سلاسل
اب سخت ہے منزل
بازار میں ہم صبح کو جائیں گے کھلے سر
اب آئے ہو بابا
کیا آپ نے فردوس سے یہ دیکھا نہ ہو گا
اک حشر بپا تھا
جب پشت سے بیمار کی کھینچا گیا بستر
اب آئے ہو بابا
شاہد رخ حیدر پہ بکھر جاتے تھے آنسو
جب کھول کے گیسو
چلاتی تھی زینب میرے بابا میری چادر
اب آئے ہو بابا